فیلڈ مارشل کی سوچ، ایک رہنمائی

منگل 19 اگست 2025
author image

چوہدری خالد عمر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشتہ دنوں سینئر صحافی سہیل وڑائچ کے کالم ’فیلڈ مارشل سے پہلی ملاقات‘ نے قوم کے سامنے جنرل عاصم منیر کا وہ چہرہ نمایاں کیا ہے، جو روایتی طاقت کے تاثر سے ہٹ کر ایک مخلص، عاقل اور دردِ دل رکھنے والے سپہ سالار کا ہے۔ ان کی گفتگو اور طرزِ عمل نے یہ حقیقت کھول دی کہ وہ صرف ایک جنرل نہیں، بلکہ ایسے قائد ہیں جو اپنے منصب کو ذمہ داری اور امانت سمجھتے ہیں، نہ کہ کسی عہدے کی تمنا۔

اللہ کے سپاہی

جنرل عاصم منیر نے صاف الفاظ میں کہا: ’خدا نے مجھے ملک کا محافظ بنایا ہے، مجھے اس کے علاوہ کسی عہدے کی خواہش نہیں۔ میں ایک سپاہی ہوں اور میری سب سے بڑی خواہش شہادت ہے۔‘

یہ جملے اس بات کا اعلان ہیں کہ ان کی منزل اقتدار یا رتبہ نہیں، بلکہ اللہ کی رضا اور وطن کا تحفظ ہے۔ ان کا ہر لفظ جذبہ شہادت سے بھرا ہوا ہے۔

سیاسی قیادت کی قدردانی

یہ پہلو بھی غیر معمولی ہے کہ انہوں نے کھلے دل سے وزیراعظم شہباز شریف اور کابینہ کی محنت کو سراہا۔ جنگ کے دنوں میں سول قیادت کے حوصلے کو خراجِ تحسین دینا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اداروں کے ٹکراؤ کے بجائے تعاون اور ہم آہنگی پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف ان کی اعلیٰ ظرفی ظاہر کرتا ہے بلکہ ایک ایسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو ملک کو آگے بڑھا سکتی ہے۔

سیاست اور قرآن کی روشنی

جب سیاسی مصالحت کا سوال اٹھا تو انہوں نے اسے محض ایک دنیاوی معاملہ نہیں سمجھا بلکہ قرآنِ مجید کی آیات کی روشنی میں سمجھایا۔ حضرت آدمؑ کی تخلیق اور ابلیس کے انکار کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا:

’جو سچے دل سے معافی مانگ لے وہ فرشتہ بن جاتا ہے، اور جو ضد پر اَڑ جائے وہ شیطان کی راہ پر چل پڑتا ہے۔‘

یہ پیغام پاکستانی سیاست کے لیے بھی سبق ہے کہ ضد اور انا نہیں بلکہ عاجزی اور معافی ہی اصل راستہ ہے۔

معاشی ویژن

فیلڈ مارشل نے پاکستان کے معاشی مستقبل کا جو خاکہ پیش کیا وہ عام دعووں سے کہیں آگے تھا۔ انہوں نے حساب کتاب کے ساتھ بتایا کہ ریکوڈک سے اگلے سال سے ہی اربوں ڈالر کا خالص منافع شروع ہوگا، جو ہر سال بڑھتا جائے گا۔

ان کا یقین تھا کہ زمین کے ان نایاب خزانوں سے نہ صرف پاکستان اپنے قرضے اتار دے گا، بلکہ دنیا کی خوشحال ترین ریاستوں میں شمار ہوگا۔ یہ بات ایک ایسے سپہ سالار کے ویژن کو ظاہر کرتی ہے جو صرف جنگی محاذ پر نہیں بلکہ معیشت کے محاذ پر بھی رہنمائی کر سکتا ہے۔

خارجہ پالیسی میں توازن

انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ چین اور امریکا کے درمیان توازن قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ہم ایک دوست کے لیے دوسرے کو قربان نہیں کریں گے۔‘

یہ جملہ پاکستان کی خودداری اور متوازن خارجہ پالیسی کا نچوڑ ہے۔ ان کا صدر ٹرمپ کو امن کا خواہاں کہنا اور نوبل انعام کی سفارش کا حوالہ دینا بھی اس بات کا اظہار ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ دنیا کو امن کا پیغام دیا ہے۔

دشمنوں کے عزائم بے نقاب

جنرل عاصم منیر ہر فورم پر بھارت اور اس کے ہندوتوا نظریے کو بے نقاب کرتے ہیں۔ برسلز کی کانفرنس میں بھی انہوں نے مودی سرکار کو متنبہ کیا کہ پاکستان کے خلاف پراکسی وار بند کرے۔

افغان حکومت کو بھی انہوں نے دو ٹوک پیغام دیا کہ اگر طالبان کو پاکستان میں دھکیلا گیا تو ہر قطرہ خون کا حساب چکایا جائے گا۔ یہ جرأت مندانہ موقف ان کی غیرتِ ایمانی اور حب الوطنی کا ثبوت ہے۔

عاجزی اور عوام سے تعلق

اس ملاقات کا سب سے حسین پہلو ان کی عاجزی اور سادگی تھی۔ عام طور پر بڑے حکمران اور جرنیل ’ہٹو بچو‘ کے شور میں گِھرے رہتے ہیں، لیکن وہ گھنٹوں کھڑے رہے، سینکڑوں اوورسیز پاکستانیوں سے ہاتھ ملایا، تصویر بنوائی اور ہر سوال کا جواب دیا۔ نہ ان کے چہرے پر تھکن تھی نہ کوفت، بلکہ ایک ہلکی مسکراہٹ تھی۔ انہوں نے کہا:

یہ لوگ بہت دور سے آئے ہیں، ان کا دل کیسے توڑوں؟‘

یہ جملہ ایک فوجی نہیں، بلکہ ایک خادمِ قوم کی زبان سے نکلا ہوا لگتا ہے۔

اصل پیغام

ان کی باتوں کا مرکزی نکتہ یہی تھا کہ سویلین نظام کو چلنا چاہئے۔ اختلافات کو مصالحت اور مصلحت سے سلجھانا چاہیے تاکہ ایک مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکے۔ یہ سوچ ایک ایسے قائد کی نشانی ہے جو ملک کو صرف طاقت کے زور پر نہیں بلکہ جمہوریت، اخلاص اور قومی یکجہتی کے ذریعے مضبوط دیکھنا چاہتا ہے۔

نتیجہ

فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی یہ گفتگو اور طرزِ عمل قوم کے سامنے ایک ایسے رہنما کی تصویر پیش کرتے ہیں جو اقتدار سے بے نیاز، شہادت کا متمنی، سیاست میں انصاف پسند، معیشت میں وژنری اور عوام کے لیے درویش صفت ہے۔

ان کی سوچ میں دین بھی ہے، دنیا بھی، طاقت بھی ہے اور عاجزی بھی، عزم بھی ہے اور امید بھی۔

یقیناً قوم کا یہ سپہ سالار آنے والے دنوں میں پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے وہ کردار ادا کر سکتا ہے جس کی تمنا ہر محبِ وطن پاکستانی کے دل میں ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp