ملک بھر خصوصاً خیبرپختونخوا میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی اصل وجوہات کیا ہیں؟

منگل 19 اگست 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان بھر میں حالیہ موسلادھار بارشوں، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں سینکڑوں افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں اور خیبرپختونخوا کے اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ قدرتی آفات کا یہ سلسلہ ملک میں کوئی نیا نہیں مگر اس بار تباہی کی شدت اور وسعت نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں بارشوں اور سیلاب سے 358 افراد جاں بحق، پی ڈی ایم اے رپورٹ جاری

ڈی ڈبلیو کے لیے کی گئی سحر بلوچ کی ایک رپورٹ کے مطابق جہاں عوام کی ایک بڑی تعداد ان واقعات کو قدرت کا عذاب سمجھتی ہے وہیں سائنسدان اور ماحولیاتی ماہرین مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ یہ سب کچھ موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے جسے نظر انداز کرنا خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔

ماحولیاتی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ بارشوں اور تباہی کی وجوہات میں میں درختوں کی بے دریغ کٹائی، ندی نالوں اور دریاؤں کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹیں اور غیر منصوبہ بند تعمیرات شامل ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے ماہر اور بونیر کے رہائشی وقار عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ گزشتہ 7 سالوں میں ضلعی انتظامیہ نے کئی مقامات پر سڑکوں کی تعمیر کے لیے درخت کاٹے، جس سے علاقے میں گرمی کی شدت بڑھی اور موسم کے پیٹرن میں اچانک تبدیلی آئی۔

مزید پڑھیے: کراچی میں موسلادھار بارش سے 8 افراد جاں بحق، سڑکیں زیرِ آب، بجلی غائب ہوگئی

انہوں نے بتایا کہ پہلی مرتبہ ہمارے علاقے میں پہاڑ کا اتنا بڑا حصہ گھروں پر آ گرا۔ کئی دن گزر گئے لیکن ابھی تک بھاری مشینری نہیں پہنچی اور لوگ ہاتھوں سے ملبہ ہٹا رہے ہیں۔

قدرتی آفت یا انسانی غفلت؟

سوات یونیورسٹی کے ماہرِ ماحولیات پروفیسر محمد قاسم کے مطابق یہ قدرتی نہیں بلکہ انسانی آفت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دراصل فطرت کے ردعمل کا سامنا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کئی علاقوں میں پانی کے بہاؤ کا قدرتی راستہ بند کر دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں بارشوں کا دباؤ تباہ کن ثابت ہوا۔

ان کے مطابق حکومت صرف وارننگ جاری کر کے بری الذمہ ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہنا ہے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عام لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کا علاقہ خطرے میں ہے اور اگر ہے تو کرنا کیا ہے؟

مختلف زمینی حقائق، نتیجہ ایک

پروفیسر قاسم نے کہا کہ جہاں سوات میں دریا کے ساتھ غیر قانونی تعمیرات کی وجہ سے تباہی ہوئی وہیں بونیر میں کوئی بڑا دریا نہیں لیکن تباہی پھر بھی ہوئی۔

مزید پڑھیں: ’18 سالہ کارکردگی کا پول ایک بار پھر کھل گیا‘، بارش کے بعد کراچی ڈوبنے پر پیپلز پارٹی پر شدید تنقید

انہوں نے کہا کہ زرعی زمینوں پر بغیر کسی ایمرجنسی جائزے کے تعمیرات کی گئیں۔ بونیر میں ماضی میں بمشکل بارش ہوتی تھی اب وہ علاقے 30 سالہ بارش کا ریکارڈ توڑ رہے ہیں۔

پاکستان اور ماحولیاتی خطرات

واضح رہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کی کاربن اخراج میں شراکت صرف ایک فیصد ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلی کے شدید اثرات جھیلنے والے ممالک میں پاکستان نمایاں ہے۔

گزشتہ 3 سالوں میں غیر معمولی بارشوں، گلیشیئرز کے پگھلنے اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے ملک کو شدید متاثر کیا ہے۔

حل کیا ہے؟

پروفیسر محمد قاسم کہتے ہیں کہ اب صرف تنبیہ کافی نہیں بلکہ خطرناک علاقوں کی واضح نشاندہی، دریاؤں کے اطراف سے تجاوزات کا خاتمہ، مناسب درختوں کی شجر کاری اور ہنگامی حالات میں فوری رسپانس کا نظام ناگزیر ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے دیہی علاقوں میں 10 سے 15 فیصد لوگوں کو ہی علم ہوتا ہے کہ وہ خطرے میں ہیں مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔

 

انہوں نے کراچی، لاہور، اور اسلام آباد جیسے شہروں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ڈی ایچ اے لاہور میں بھی حالیہ سیلاب کے دوران کئی گھر ڈوب گئے اور باپ بیٹی کے بہہ جانے کا واقعہ ثبوت ہے کہ یہ مسئلہ صرف پہاڑی علاقوں کا نہیں رہا۔

یہ بھی پڑھیے: خیبرپختونخوا میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے متعلق دل دہلانے والی ویڈیوز

ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کو اب ماحولیاتی خطرات کو صرف قدرتی حادثات سمجھنے کی بجائے اپنی پالیسیوں کا نتیجہ مان کر اصلاح کرنا ہو گی ورنہ آنے والے برسوں میں بارش، سیلاب اور کلاؤڈ برسٹ جیسے واقعات اور بھی شدید اور مہلک ہو سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp