امریکی حکومت نے امریکا میں رہنے کے حق کے فیصلوں میں اب درخواست گزاروں کے ’امریکا مخالف‘ خیالات، بشمول سوشل میڈیا پوسٹس، کو بھی دیکھا جائے گا۔
امریکا میں رہائش یا شہریت حاصل کرنے کی درخواستوں سے متعلق امریکی شہریت اور امیگریشن سروسز نے اعلان کیا کہ درخواست دہندگان کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کی جانچ کو مزید وسیع کیا جائے گا۔
ایجنسی کے ترجمان میتھیو ٹریگسر نے ایک بیان میں کہا کہ امریکا کے فوائد ان لوگوں کو نہیں ملنے چاہییں جو ملک سے نفرت کرتے ہیں اور امریکا مخالف نظریات کو فروغ دیتے ہیں۔’امیگریشن کے فوائد، بشمول امریکا میں رہنے اور کام کرنے کا حق، ایک اعزاز ہیں، حق نہیں۔‘
یہ بھی پڑھیں: امریکا جانا مشکل :امیگریشن پالیسی سخت کرنے کا بل کانگریس میں پیش
1952 میں متعارف کیے گئے امریکی امیگریشن اور نیشنلٹی ایکٹ، ’امریکا مخالف‘ نظریات کی تعریف بیان کرتا ہے جو اُس وقت زیادہ تر کمیونسٹ نظریات پر مرکوز تھی۔
ٹرمپ انتظامیہ پہلے ہی اُن افراد کے ویزے منسوخ یا روکنے کے اقدامات کر چکی ہے جنہیں عمومی طور پر امریکی خارجہ پالیسی اور خصوصیت کے ساتھ اسرائیل سے متعلق پالیسیوں کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔
امیگریشن سے متعلق تازہ ترین ہدایات میں کہا گیا ہے کہ حکام یہ بھی دیکھیں گے کہ آیا درخواست گزار ’یہود مخالف نظریات‘ کو فروغ دیتے ہیں یا نہیں۔
مزید پڑھیں: امریکا نے 6 ہزار سے زائد غیرملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کر دیے
ٹرمپ انتظامیہ نے طلبا اور جامعات پر الزام لگایا ہے کہ وہ غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خلاف احتجاج کے ذریعے یہود مخالف رویے اپناتے ہیں، تاہم متعدد کارکنان نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق، جنوری میں سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک 6,000 طلبا کے ویزے منسوخ کیے جا چکے ہیں۔