پاکستان نے غزہ کی صورت حال پر او آئی سی کے ہنگامی اجلاس میں سات مطالبات کردیے۔
او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اکیسویں غیر معمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہاکہ اسرائیلی قیادت کی جانب سے حالیہ اشتعال انگیز اور توہین آمیز بیانات عالمی قوانین اور نظام کی صریح تضحیک ہیں۔ غزہ پر مکمل قبضے اور نام نہاد ’گریٹر اسرائیل‘ کے منصوبے اسرائیلی توسیع پسندانہ ذہنیت کو ظاہر کرتے ہیں جس کی شدید ترین مذمت کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: گریٹر اسرائیل کا منصوبہ ناقابل قبول، عالمی برادری غزہ میں غیر مشروط جنگ بندی کرائے: پاکستان
اسحاق ڈار نے وزیراعظم شہباز شریف کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ وزیراعظم پاکستان نے کہا ’اس المیے کی جڑ اسرائیل کا غیرقانونی قبضہ ہے۔ جب تک یہ قبضہ ختم نہیں ہوگا، امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ہم اپنے برادر عرب ممالک کی خودمختاری اور آزادی کے تحفظ کے لئے ان کے شانہ بشانہ ہیں۔‘
پاکستان کے 7 مطالبات کون کونسے ہیں؟
• اول: غزہ میں فوری، مستقل اور غیر مشروط جنگ بندی اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2735 پر عملدرآمد کیا جائے۔
• دوم: غزہ میں محفوظ اور بلا رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائی جائے، پاکستان مسلسل امداد بھجوا رہا ہے۔
• سوم: فلسطینیوں کی بقا کے لیے انحصار پذیر ادارہ یو این آر ڈبلیو اے کی حمایت
• چہارم: جبری بے دخلی، غیرقانونی آبادکاری اور زمینوں پر قبضہ ختم کیا جائے۔
• پنجم: عرب اور او آئی سی کا غزہ تعمیرِ نو منصوبہ فوری طور پر نافذ ہو۔
• ششم: دو ریاستی حل پر مبنی سیاسی عمل کا فوری آغاز کیا جائے۔
• ہفتم: جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اسرائیل کا احتساب کیا جائے۔
اپنے خطاب میں نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے بالخصوص سعودی عرب اور ترکئے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں مملکت سعودی عرب کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں جو خادمِ حرمین شریفین، شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود، ولی عہد و وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود، اور وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود کی دانشمندانہ قیادت میں او آئی سی کی حمایت اور مسلم اُمہ کو درپیش چیلنجوں کے حل میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
’غزہ مکمل انسانی المیے کا شکار ہے‘
اُنہوں نے کہاکہ میں برادر ملک جمہوریہ ترکیہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جو او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے اسلامی جمہوریہ ایران اور ریاستِ فلسطین کے ساتھ مل کر مسلم اُمہ کے لیے نہایت نازک گھڑی میں اس اہم اجلاس کے انعقاد کا باعث بنا۔
اسحاق ڈار نے کہاکہ ہم ایک بار پھر یہاں جمع ہیں جبکہ غزہ لہو لہان ہے۔ اسرائیل کھلے عام اور دانستہ طور پر بین الاقوامی قانون، بشمول انسانی ہمدردی کے قوانین، سلامتی کونسل کی قراردادوں اور عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ غزہ نہ صرف معصوم جانوں بلکہ عالمی قوانین کے لئے بھی قبرستان بن گیا ہے۔ اسرائیلی جارحیت میں اب تک 60 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ اسپتالوں، اسکولوں، اقوام متحدہ کی عمارات، امدادی قافلوں اور پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنانا کوئی حادثاتی عمل نہیں بلکہ اجتماعی سزا کے بدترین مظاہر ہیں۔
اسحاق ڈار نے کہاکہ غزہ مکمل انسانی المیے کا شکار ہے۔ قریباً 2 برس سے یہ وحشیانہ بمباری، ناکہ بندی، بھوک اور قحط سہہ رہا ہے، جبکہ مغربی کنارے اور مقبوضہ القدس میں بھی ظلم و تشدد بڑھ رہا ہے۔
’قابض قوت کی جانب سے قائم کردہ نام نہاد ’انسانی نظام‘ ایک فریب ہے‘
انہوں نے کہاکہ قابض قوت کی جانب سے قائم کردہ نام نہاد ’انسانی نظام‘ ایک فریب ہے۔ لوگ خوراک لینے جاتے ہیں تو گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ بھوک اور قحط کی صورتحال انتہائی خطرناک سطح تک پہنچ چکی ہے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان 31 عرب اسلامی ممالک اور او آئی سی، عرب لیگ اور جی سی سی کے سیکریٹری جنرلز کے اس مشترکہ بیان کی بھی حمایت کرتا ہے جس میں ’گریٹر اسرائیل‘ کے منصوبے کو خطے کے امن، خودمختاری اور عالمی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ قرار دیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان اُن تمام ریاستوں اور شراکت داروں کا شکر گزار ہے جو غزہ میں امن کے قیام کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دو ریاستی حل ہی امن کی کنجی ہے، نیویارک میں عالمی کانفرنس
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی سطح پر فلسطینی ریاست کے حق میں بڑھتی ہوئی حمایت کا خیر مقدم کرتا ہے۔ ہم اُن ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں جو ابھی تک فلسطین کو تسلیم نہیں کرسکے کہ جلد از جلد تسلیم کریں۔ سعودی عرب اور فرانس کی جانب سے منعقدہ ’دو ریاستی حل کانفرنس‘ مثبت پیشرفت تھی، لیکن اب عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔ فلسطین کی آزاد اور خودمختار ریاست 1967 کی سرحدوں کے مطابق قائم ہونی چاہیے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔