24 اگست کو جب نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس کے درمیان ڈھاکہ میں ملاقات ہوئی تو ڈاکٹر یونس نے اسحاق ڈار سے کہاکہ جب بھی میری اور وزیراعظم شہباز شریف کی ملاقات یا بات چیت ہوئی ہم نے سارک فورم کو فعال بنانے کے بارے میں بات چیت کی۔ اس کے بعد جب اسحاق ڈار بنگلہ دیش کی سب سے زیادہ با اثر سیاستدان بیگم خالدہ ضیاء سے ملے تو انہوں نے بھی سارک فورم کو فعال بنانے کے بارے میں بات چیت کی۔
بنگلہ دیش میں ’وی نیوز‘ کے نمائندہ مقتدر رشید نے ایک خصوصی انٹرویو میں اس بات کا انکشاف کیا اور بتایا کہ جب اسحاق ڈار ڈھاکہ سے او آئی سی اجلاس میں شرکت کے لیے جدہ روانہ ہو رہے تھے تو الوداع کہتے ہوئے ڈاکٹر محمد یونس کی باڈی لینگویج ایسی تھی گویا کہہ رہے ہوں بھائی آپ چلیں میں بھی پہنچا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان بنگلہ دیش تعلقات میں بہتری کا عمل سبوتاژ کرنے کی کوششیں ناکام ہوں گی، دفتر خارجہ
بنگلہ دیش میڈیا اور عوام سب اسحاق ڈار کے دورے کے حق میں نظر آئے۔ صرف بنگلہ دیشی میڈیا کے ایک حصے نے اسحاق ڈار کے اس بیان پر تنقید کی جس میں انہوں نے کہاکہ ماضی کو بھلا کر کھلے دل کے ساتھ آگے بڑھیں۔
اسحاق ڈار کے دورہ بنگلہ دیش کی اہمیت
اسحاق ڈار کے دورے سے 13 برس قبل آخری بار نومبر 2012 میں اس وقت کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے 6 گھنٹے کے لیے ڈھاکہ کا دورہ کیا تھا جس کا مقصد بنگلہ دیشی وزیراعظم کو اسلام آباد میں ہونے والے ڈی ایٹ اجلاس میں شرکت کی دعوت دینا تھا۔ لیکن اس کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں 1971 کے واقعات کو لے کر تلخیاں رہیں اور بنگلہ دیش کی جانب سے پاکستان پر مختلف اوقات میں الزامات لگائے جاتے رہے۔
سابق وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت بھارت کے بہت قریب تھی اور پھر 5 اگست 2024 کو طلبا احتجاج کے نتیجے میں ان کی حکومت گرا دی گئی۔
بنگلہ دیش میں ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں قائم ہونے والے عبوری نظام کے پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں اور 13 سال بعد اسحاق ڈار کا دورہ بنگلہ دیش انہی خوشگوار تعلقات کا عکاس ہے۔
وی نیوز کے نمائندے مقتدر رشید نے خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ جیو پالیٹکس اور نئی عالمی صف بندیوں کے تناظر میں اسحاق ڈار کے دورے کی بہت اہمیت یے خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے وسیع مواقع اور امکانات موجود ہیں۔
1971 واقعات کی تلخ یادیں: بنگلہ دیش کو پاکستان سے واضح بیان کی توقع
وی نیوز کے نمائندے مقتدر رشید نے بتایا کہ بنگہ دیش کے اندر 1971 کے واقعات کی تلخ یادیں ابھی بھی موجود ہیں جس کے بارے میں وہاں کے پریس میں لکھا بھی گیا۔ بنگلہ دیش اس بارے میں پاکستان سے کسی واضح اور ٹھوس مؤقف کی توقع رکھتا ہے تاہم جب سینیٹر اسحاق ڈار سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ ایک بار 1974 اور دوسری بار 2002 میں حل ہو چکا ہے اور اب ہمیں کھلے دل کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
مقتدر رشید کے مطابق بنگلہ دیش کے مشیر برائے امور خارجہ نے اس سلسلے میں خوبصورت بات کی کہ ہم تاریخ کے اس بوجھ کے باوجود اپنے تعلقات جاری رکھنا چاہتے ہیں اور جب بات چیت ہو تو سب ممکن ہو جاتا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان معاہدات پر عمل درآمد کیسے ہوگا؟
اس بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے مقتدر رشید نے بتایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کل 4 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے جو باہمی تعاون کے بارے تھیں۔ اس کے لیے دونوں ملکوں کے سفارتی پاسپورٹس کے حامل افراد کے لیے ویزا کی شرط ختم کرنے کے معاہدے پر دستخط ہوئے، اور ایک 4 سالہ مدت کا معاہدہ ثقافتی تبادلوں کے حوالے سے ہوا جس سے دونوں ملکوں کے عوام کو قریب لانے میں مدد ملے گی۔
بیگم خالدہ ضیا اور اسحاق ڈار کے درمیان کیا بات چیت ہوئی؟
اس بارے میں بات کرتے ہوئے مقتدر رشید نے بتایا کہ بیگم خالدہ ضیا اور اسحاق ڈار کے درمیان قریباً 50 منٹ ملاقات ہوئی جس میں بیگم خالدہ ضیا نے سب سے پہلے سارک فورم کو فعال بنانے کے بارے میں بات چیت کی۔ سارک بنیادی طور پر بیگم خالدہ ضیا کے مرحوم شوہر اور بنگلہ دیش کے سابق صدر ضیاالرحمان کا پیش کردہ ایک خیال تھا۔ خالدہ ضیا نے کہاکہ سارک فورم سے بہت سے ہمہ جہت مسائل حل کئے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے مستقبل میں دونوں ملکوں کے اشتراک بارے میں بات چیت کی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دو طرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے 6 معاہدوں پر دستخط
اس کے علاوہ بیگم خالدہ ضیا نے پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کے بارے میں دریافت کیا اور جاں بحق ہونے والے افراد کے لیے تعزیت کی۔