ہر سال دنیا بھر میں لاکھوں افراد خودکشی کر کے اپنی جان لے لیتے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ 3 دہائیوں کے دوران عالمی سطح پر خودکشی کی شرح میں واضح کمی آئی ہے ماہرین کے مطابق یہ تعداد اب بھی تشویش ناک ہے۔ صرف جرمنی میں 2023 کے دوران 10 ہزار سے زائد افراد نے خودکشی کی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں طلبہ کی خودکشیوں میں اضافہ: اصل وجہ کیا ہے؟
جرمن خبر رساں ادارے ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1990 سے سنہ 2021 کے درمیان دنیا کے 102 ممالک میں خودکشی کی شرح میں اوسطاً 30 فیصد کمی ہوئی۔ جریدے ’نیچر مینٹل ہیلتھ‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق یہ کمی خاص طور پر زیادہ آمدنی والے ممالک میں زیادہ نمایاں رہی۔
یہ تحقیق عالمی ادارہ صحت کے ڈیٹا پر مبنی تھی جسے 5 براعظموں کے ممالک سے جمع کیا گیا۔ جنوبی کوریا کی کیونگ ہی یونیورسٹی کے سون کم اور سیلن وو کی سربراہی میں بین الاقوامی محققین نے اس ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔
سنہ 1990 میں خودکشی کی شرح فی ایک لاکھ افراد 10.33 تھی جو 2021 تک کم ہو کر 7.24 رہ گئی یعنی تقریباً 29.9 فیصد کمی۔
امیر ممالک میں یہ شرح 12.68 سے گھٹ کر 8.61 تک آئی یعنی 32.1 فیصد کمی۔
کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں شرح 7.88 سے کم ہو کر 5.73 ہوئی یعنی 27.3 فیصد کمی سامنے آئی۔
مزید پڑھیے: چترال میں 2 دنوں کے دوران خودکشی کے 4 واقعات، نو بیاہتا دلہا اور 3 خواتین جان سے گئے
تحقیق میں بتایا گیا کہ یورپ میں خودکشی کی شرح میں کمی کی ایک بڑی وجہ میڈیا کی ذمے دارانہ رپورٹنگ اور نوجوانوں کی سماجی و جذباتی صلاحیتوں کو فروغ دینا ہے۔
برلن میں شماریاتی دفتر کے ماہر ہولگر لیئرہوف کے مطابق بہتر نفسیاتی و سماجی سہولیات، ذہنی صحت سے متعلق بدنامی میں کمی اور خودکشی کی روک تھام کے پروگرام بھی اس کمی میں مؤثر رہے۔
رکاوٹیں اور چیلنجز
محققین کا کہنا ہے کہ مختلف ممالک میں خودکشی کی تعریف اور رپورٹنگ کا طریقہ مختلف ہوتا ہے جو اعداد و شمار پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر کم آمدنی والے ممالک میں بدنامی، مذہبی و قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے خودکشی کے کیسز اکثر رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
مطالعے کے مطابق اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو 2050 تک خودکشی کی شرح مزید کم ہو کر 6.49 فی ایک لاکھ افراد تک پہنچ سکتی ہے۔ تاہم محققین نے خبردار کیا کہ کچھ ممالک اور مخصوص گروہ اب بھی زیادہ خطرے میں رہیں گے اس لیے مؤثر اور عالمی سطح کی حکمت عملیوں کی ضرورت باقی رہے گی۔
ماہرین کی آرا
شماریات دان ہولگر لیئرہوف نے اس تحقیق کو مضبوط اور پیش گوئی کے ماڈل کو قابلِ اعتبار قرار دیا مگر خبردار کیا کہ طویل المدتی پیش گوئیاں ہمیشہ کچھ حد تک غیر یقینی ہوتی ہیں کیونکہ ان میں وبائیں، معاشی بحران یا دیگر ہنگامی حالات شامل نہیں ہوتے۔
فرائی برگ یونیورسٹی کے ماہر لاسے زانڈر کے مطابق خودکشی کی شرح میں کمی خوش آئند ہے مگر موجودہ اعداد و شمار اب بھی بہت زیادہ ہیں۔ ان کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 7 لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں۔ یہ تعداد ٹریفک حادثات، ایڈز، غیر قانونی منشیات اور پرتشدد واقعات سے ہونے والی اموات سے بھی زیادہ ہے۔
زانڈر نے زور دیا کہ زیادہ تر خودکشی کی کوششیں وقتی یا قابل علاج مسائل کی وجہ سے کی جاتی ہیں، اور ایسے افراد کو پیشہ ورانہ مدد دی جا سکتی ہے۔ مقامی کلینکس، معالجین اور ہیلپ لائنز کے ذریعے مدد حاصل کی جا سکتی ہے، اور والدین، نوجوانوں یا خاندانی مشکلات کا سامنا کرنے والوں کے لیے خصوصی سروسز بھی دستیاب ہیں۔
مزید پڑھیں: غزہ کے محاذ سے لوٹنے والے اسرائیلی فوجی کی خودکشی، فوج میں بحرانی کیفیت
زانڈر کا کہنا ہے کہ اگر آپ کسی شخص کے بارے میں فکرمند ہیں تو اس سے خودکشی کے خیالات کے بارے میں براہ راست بات کریں اور پیشہ ورانہ مدد لینے میں اس کی رہنمائی کریں۔














