اسرائیلی فوج نے غزہ شہر کے گرد کارروائیاں تیز کردیں، جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تباہ حال فلسطینی علاقے کے بعد از جنگ منصوبوں پر وائٹ ہاؤس میں اجلاس بلانے کی تیاری کررہے ہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل پر اندرونِ ملک اور عالمی سطح پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ غزہ میں قریباً 2 سال سے جاری اپنی مہم ختم کرے، جہاں فوج علاقے کے سب سے بڑے شہر پر قبضے کی تیاری کررہی ہے اور اقوام متحدہ قحط کا اعلان کر چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل میں غزہ جنگ بند کرنے کے لیے بھرپور مظاہرے، کلیسائی رہنماؤں کا بھی اظہار تشویش
بدھ کو اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہاکہ غزہ شہر کو خالی کرانا ناگزیر ہے کیونکہ فوج فلسطینی علاقے کے سب سے بڑے شہر پر قبضے کی تیاری کررہی ہے۔
فوج کے عربی ترجمان اویخائے ادرعی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر کہا: ’غزہ شہر سے انخلا ناگزیر ہے، اور جو بھی خاندان جنوب کی جانب منتقل ہوگا اسے سب سے زیادہ فراخدلانہ انسانی امداد فراہم کی جائے گی، جس پر کام جاری ہے۔‘
ادھر ثالثوں نے ایک جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کا مسودہ پیش کیا ہے جسے فلسطینی تنظیم حماس نے قبول کرلیا ہے، تاہم اسرائیل نے ابھی تک باضابطہ جواب نہیں دیا۔
میدانِ جنگ میں اسرائیلی فوج نے کہاکہ اس کے دستے غزہ شہر کے مضافات میں زیر زمین اور زمینی مزاحمتی انفراسٹرکچر کو ڈھونڈنے اور تباہ کرنے کی کارروائیاں کررہے ہیں۔
غزہ کے مختلف علاقوں میں اسرائیلی فوج کی بمباری جاری
ادھر غزہ شہر کے محلے زیتون کے رہائشیوں نے رات بھر شدید اسرائیلی بمباری کی اطلاع دی ہے۔
29 سالہ طلہ الخطیب نے اے ایف پی کو بتایا کہ جنگی طیاروں نے کئی بار حملے کیے، ڈرونز نے پوری رات فائرنگ کی۔ اور زیتون میں کئی گھروں کو اڑا دیا گیا۔ ’ہم ابھی اپنے گھر میں ہیں، کچھ ہمسائے فرار ہو گئے جبکہ دیگر موجود ہیں، لیکن آپ کہیں بھی جائیں، موت پیچھا کرتی ہے۔‘
62 سالہ عبد الحمید السیفی نے کہاکہ وہ منگل کی دوپہر سے باہر نہیں نکلے۔ ’جو بھی باہر نکلتا ہے ڈرون فائرنگ کرتے ہیں۔ میرا فون قریباً بند ہونے والا ہے، جیسے ہی بیٹری ختم ہوگی ہمارا رابطہ ختم ہو جائے گا۔ ہمارا انجام نامعلوم ہے۔‘
اسرائیلی وزیر دفاع اسریل کاٹز نے جمعہ کو دھمکی دی تھی کہ اگر حماس اسرائیل کی شرائط پر جنگ ختم کرنے پر آمادہ نہ ہوئی تو غزہ شہر کو تباہ کردیا جائے گا۔
یہ دھمکی ایسے وقت میں دی گئی جب وزارتِ دفاع نے فوجی منصوبے کی منظوری دی اور قریباً 60 ہزار ریزروسٹ فوجیوں کو طلب کرنے کی اجازت دی۔
یہ بھی ایسے وقت میں ہوا جب اقوام متحدہ نے باضابطہ طور پر غزہ گورنریٹ (جس میں غزہ شہر بھی شامل ہے) میں قحط کا اعلان کیا اور اس کا الزام اسرائیل کی جانب سے امدادی سامان کی منظم رکاوٹ کو قرار دیا۔
ٹرمپ غزہ جنگ کے بعد کے معاملے پر اجلاس بلائیں گے، اسٹیو وٹکوف
دباؤ بڑھنے کے ساتھ ہی امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کہا کہ ٹرمپ بدھ کو وائٹ ہاؤس میں اعلیٰ حکام کا اجلاس بلائیں گے تاکہ جنگ کے بعد کے غزہ کے لیے تفصیلی منصوبہ طے کیا جا سکے۔
انہوں نے فاکس نیوز پر کہاکہ وائٹ ہاؤس میں صدر کی سربراہی میں بڑا اجلاس ہوگا، اور یہ ایک جامع منصوبہ ہے جس پر ہم کام کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ ٹرمپ نے رواں برس دنیا کو اس وقت حیران کر دیا تھا جب انہوں نے تجویز دی تھی کہ امریکا کو غزہ پر کنٹرول سنبھال لینا چاہیے، وہاں کے باسیوں کو نکال دینا چاہیے اور علاقے کو ساحلی رئیل اسٹیٹ کے طور پر ترقی دینی چاہیے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس تجویز کو سراہا، جس پر یورپ اور عرب دنیا میں شدید ردعمل سامنے آیا۔
یرغمالیوں کے لیے احتجاج
منگل کی شام اسرائیلی سیکیورٹی کابینہ کے اجلاس کے دوران تل ابیب میں ہزاروں افراد نے جمع ہو کر جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کا مطالبہ کیا۔
بعد ازاں نیتن یاہو نے فیصلہ واضح کرنے سے گریز کیا لیکن کہاکہ میں صرف ایک بات کہوں گا ’یہ غزہ میں شروع ہوا اور یہ غزہ میں ختم ہوگا۔ ہم ان ایسے لوگوں کو وہاں نہیں چھوڑیں گے۔‘
گزشتہ ہفتے نیتن یاہو نے فوری مذاکرات کا حکم دیا تاکہ تمام یرغمالیوں کی رہائی یقینی بنائی جا سکے، جبکہ ساتھ ہی غزہ شہر پر قبضے کے منصوبے پر بھی اصرار کیا۔
یہ اس وقت سامنے آیا جب حماس نے ثالثوں کی جانب سے پیش کردہ تازہ جنگ بندی تجویز کو قبول کر لیا، جس کے مطابق ابتدائی 60 دنوں میں قیدیوں کے بدلے یرغمالیوں کی بتدریج رہائی کی جانی ہے۔
ثالث ابھی بھی اسرائیل کے جواب کے منتظر ہیں، قطری وزارت خارجہ
منگل کو دوحہ میں قطری وزارتِ خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے معمول کی پریس کانفرنس میں کہا کہ ثالث ابھی بھی اسرائیل کے جواب کے منتظر ہیں۔
یہ جنگ اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے سے شروع ہوئی تھی، جس میں 1200 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: حماس کو کچلنا غزہ جنگ کے خاتمے کا بہترین طریقہ، نیا آپریشن جلدی مکمل کرلیں گے، اسرائیلی وزیراعظم
اسی حملے میں 251 افراد کو یرغمال بنایا گیا، جن میں سے 49 ابھی بھی غزہ میں ہیں اور ان میں سے 27 کو اسرائیلی فوج مردہ قرار دے چکی ہے۔
اسرائیل کے جوابی حملوں میں اب تک کم از کم 62 ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ یہ اعداد و شمار حماس کے زیرانتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے ہیں جنہیں اقوام متحدہ قابلِ اعتبار قرار دیتی ہے۔