اس وقت پاکستان کے بالائی علاقے شدید بارشوں کی لپیٹ میں ہیں لیکن اس بار ان بارشوں میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ شاید یہ غصہ قدرت کی طرف توجہ نہ دینے کی وجہ سے ہو۔ مگر جو بھی ہو ایک قیامت کا منظر ہے جو ہر لمحہ کو خوف و غم میں تبدیل کررہی ہے، یہ وقت گلے شکوؤں کا نہیں بلکہ ہمیشہ کی طرح قدرتی آفات میں ہاتھ سے ہاتھ ملانے کا ہے۔
پاکستان میں قدرتی آفات کی کہانیاں کم نہیں ہیں لیکن پاکستان کی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ کیسے اس قوم نے ایسے حالات میں ایک دوسرے کو سہارا دینے کی مثالیں قائم کیں جو آج بھی جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا سیلاب: پاک فوج کا ایک دن کا راشن، تنخواہ متاثرین کے لیے وقف
بات کریں گے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کی جو زور و شور سے جاری ہیں، فلاحی اداروں کے رضاکار مشکل حالات میں اپنے بھائیوں کے لیے دن رات موجود ہیں۔ شہر شہر امداد اکٹھی کی جارہی ہے تاکہ تکلیف میں غمزدہ بہنوں، بھائیوں، بوڑھوں اور بچوں کا کچھ سہارا بنا جاسکے، لیکن کیا ہم جانتے ہیں کہ جن کی ہم مدد کرنا چاہتے ہیں انہیں کن اشیا کی ضرورت ہے یا وہ اس وقت کن مشکلات کا سامنا کررہے ہیں؟
یہ جاننے کے لیے ہم نے کراچی کے طلبا و طالبات کی جانب سے جامعہ کراچی میں لگائے گئے امدادی کیمپ کا رخ کیا جہاں اساتذہ اور شاگردوں نے دل کھول کر امداد جمع کی جس کا سلسلہ جاری ہے، لیکن وہاں جا کر احساس ہوا کہ کیا جو اشیا جمع کی جا رہی ہیں اسی کی سیلاب زدہ علاقوں میں ضرورت ہے یا وہاں کی ضرورت کچھ اور ہے۔
سیلاب متاثرین کی مشکلات جاننے اور اس بات کا پتا لگانے کے لیے کہ متاثرین کو کن اشیا کی ضرورت ہے؟ وی نیوز نے شانگلہ اور بونیر کے علاقے پیر بابا میں موجود فلاحی اداروں کے ذمہ داران سے رابطہ کیا۔
مزید پڑھیں: بھارتی آبی جارحیت کے سبب پنجاب میں تباہ کن سیلاب، 7 افراد جاں بحق، متعدد لاپتا، کئی بستیاں غرقاب
وقاص خان جو ایثار کے نام سے خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں فلاحی ادارے کو عرصہ دراز سے چلا رہے ہیں، دیر میں قدرتی آفت آنے کے بعد انہوں نے پہلے دوست احباب سے نقصانات کی معلومات لیں، اس کے بعد ابتدائی ضروری اشیا، ڈاکٹرز اور 15 افراد کی ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچے۔
ان کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر یہ بہت پھیلا ہوا علاقہ ہے۔ یہ کہنا مشکل ہوگا کہ کون سا فلاحی ادارہ اس وقت سب سے زیادہ کام کررہا ہے لیکن الخدمت فاؤنڈیشن ایک بڑا فلاحی ادارہ ہے اور اس کے پاس وسائل بھی زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ اس علاقے میں الخدمت کا اثرورسوخ بہت زیادہ ہونے کے باعث ان کے کارکنوں یا رضا کاروں کی تعداد بھی زیادہ ہے تو یہ کہنا مشکل نہیں کہ اس وقت سب سے بڑا ریلیف آپریشن الخدمت فاؤنڈیشن کا چل رہا ہے۔
کون کون سے فلاحی ادارے پیش پیش ہیں؟
وقاص خان نے بتایا کہ دوسرے نمبر پر اے این پی کی خدائی خدمت گار فورس بھی ریلیف آپریشن میں پیش پیش ہے، پاکستان ڈیزاسٹر اتھارٹی بھی کام کررہی ہے۔ اس کے علاوہ ضلعی انتظامیہ کی مشینری بھی متاثرین کی مدد میں مصروف ہے، جبکہ ریڈ کریسنٹ کے کیمپس بھی نظر آرہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خدمت انسانیت، فلاح انسانیت، امہ ویلفئیر، عالمگیر ٹرسٹ یعنی کہیں کسی فلاحی ادارے کا کیمپ تو کہیں گاڑی نظر آرہی ہوگی، کہیں کسی کا میڈیکل ریلیف کیمپ نظر آرہا ہوگا۔ اس کے ساتھ انفرادی حیثیت میں بہت سے لوگ آتے ہیں، جو امداد کرکے یا فلاحی کاموں میں حصہ لے کر چلے جاتے ہیں۔ جبکہ طلبہ بھی اس مہم میں پیش پیش ہیں۔
مزید پڑھیں: پنجاب میں سیلاب سے نقصانات پر دکھ ہوا، جہاں ضرورت پڑی تعاون کریں گے، علی امین گنڈاپور
صفائی کا انتظام کرنا بہت ضروری ہے
وقاص خان کا کہنا تھا کہ پیر بابا اور گردونواح کے علاقے میں بہت بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا ہے اور یہاں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ صفائی ستھرائی کا ہے۔ یہاں سے کیچڑ، ملبہ اور گند نکالنا ایک بڑا مسلئہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ جو سمجھ آئی وہ یہ ہے کہ سنگل روڈ ہے اور اس کے اطراف آبادی ہے، یہ سڑک مقامی آبادی کے لیے بھی چھوٹی ہے لیکن اس وقت اس سڑک پر ریلیف آپریشن کے باعث 10 گناہ ٹریفک میں اضافہ ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہاکہ صفائی کے لیے اگر کام شروع بھی ہوتا ہے تو ٹریفک جام ہونا شروع ہو جاتی ہے، اس کا حل یہ ہو سکتا ہے کہ فلاحی ادارے کے کیمپوں کو اس مقام سے تھوڑا دور کردیا جائے اور سامان کی ترسیل کے لیے الگ نظام بنایا جائے تاکہ صفائی ہو سکے اور تعفن کو دور کیا جا سکے۔
متاثرین کی سب سے بڑی ضرورت
وقاص خان کا کہنا ہے کہ پیر بابا کے مقام پر اس وقت بجلی کی فراہمی بہت ضروری ہے کیوں کہ اس وقت وہاں کھمبے وغیرہ اکھڑ چکے ہیں، لیکن بجلی کو فعال کرنے کے لیے بہت سے وسائل درکار ہوں گے۔ علاقے میں امداد لے جانے والوں کو سولر سے چلنے والی اشیا ساتھ لے کر جانے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت وہاں جن لوگوں کے گھر اموات ہوئی ہیں وہ اور جن کے گھر نہیں ہوئیں وہ سب برابر ہیں، کیوں کہ سب کے نقصانات ہوئے ہیں۔
متاثرین کے بینک اکاؤنٹس نہیں ہیں
انہوں نے بتایا کہ مضافتی علاقے کی بات کی جائے تو وہ دشوار گزار راستوں پر محیط ہے وہاں امداد لے کر جانا بہت مشکل کام ہے لیکن نقصان وہاں بھی بہت ہوا ہے، ان علاقوں میں لوگوں کے پاس بینک یا کوئی اور اکاؤنٹس بھی نہیں ہیں جس میں رقم بھیج کر ان کی امداد کی جا سکے۔
مزید پڑھیں: ڈسکہ میں سیلاب متاثرین کی مدد پر سکھ برادری کا فیلڈ مارشل اور پاک فوج سے اظہار تشکر
ان کا کہنا تھا کہ متاثرین کے پاس جانا ہے تو ان کے علاقوں تک پہنچنا ضروری ہے اور کیش اپنے پاس رکھیں تاکہ اسی وقت انہیں دی جا سکے، جیسا کہ ہم نے 8 افراد کی مالی مدد کرنی تھی تو ان کے پاس اکاؤنٹ نہیں تھے پھر ایک یا ڈیڑھ گھنٹے کا دشور گزار راستہ طے کرکے نیچے آنا پڑا، رقم نکالی اور واپس جا کر ان کے حوالے کی گئی۔
بجلی کے متبادل ذرائع
وقاص خان کا کہنا ہے کہ جب تک بجلی بحال نہیں ہو جاتی تب تک کے لیے جنریٹرز سے کام لیا بھی جا رہا ہے اور بہت سے مقامات میں اب بھی اس کی ضرورت ہے۔ یہ کام سرکاری سطح پر بھی ہو سکتا ہے اور کوئی بڑے گروپس اگر ایسا کچھ کرنا چاہیں تو بہت ریلیف مل سکتا ہے۔ یہ وقتی طور پر کیا جا سکتا ہے جیسے ہی بجلی بحال ہو گی متعلقہ ادارے اپنے جنریٹرز واپس لے جا سکتے ہیں۔
فوری ملبہ ہٹانے کی ضرورت
وقاص خان کا کہنا ہے اس وقت انتظامی سطح پر کچھ مسائل درپیش ہیں جو نہیں ہونے چاہییں، ملبہ ہٹانے کے لیے رضاکاراور ادارے آ تو رہے ہیں لیکن اس میں تیزی کی ضرورت ہے تا کہ پیر بابا اور ملحقہ علاقوں میں لوگوں کو جلد آباد کیا جا سکے۔
مزید پڑھیں: سیالکوٹ میں صورت حال تشویشناک ہوگئی، ہیڈ مرالہ کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب
نائب صدر الخدمت فاؤنڈیشن خیبر پختونخوا اور ریلیف آپریشن انچارج شانگلہ محمد زادہ نے وی نیوز کو بتایا ہے کہ اس وقت 9 دن سے الخدمت ٹیم شانگلہ میں ریلیف آپریشن میں مصروف ہے، شانگلہ میں 4 سے 5 درے متاثر ہو چکے ہیں، 120 کے قریب گھر ملیا میٹ ہو گئے ہیں اور کم و بیش 800 افراد متاثر ہیں۔
ہزاروں کنال زمین تباہ
محمد زادہ کا کہنا ہے کہ زمینداروں کی ہزاروں کنال زمین پر تیار چاول کی فصل تباہ ہو چکی ہے۔ شانگلہ اور اس کے نواحی علاقوں میں سڑکیں کنکریٹ کی تھیں یا کچی تھیں لیکن پل نہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں کا ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ ٹوٹ چکا ہے، مقامی شہریوں کو اور رضاکاروں کو دور دراز علاقوں میں پہنچنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے رضاکار امدادی سامان کے ہمراہ کہیں ایک گھنٹہ تو کہیں 3 گھنٹے تک پیدل فاصلہ طے کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں سیلاب سے 34 اسکول تباہ، 648 جزوی متاثر، حکومت بحالی کے لیے کیا کررہی ہے؟
ضرورت کن چیزوں کی ہے؟
محمد زادہ کا کہنا تھا کہ مقامی افراد کو اس وقت خوراک کی ضرورت ہے، پانی سپلائی لائنیں تباہ ہو چکی ہیں وہ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ فلاحی ادارے فوڈ پیکیجز وغیرہ پہنچا رہے ہیں، لیکن متاثرین کی بحالی اصل کام ہے۔