بے شک آزمائش کی یہ گھڑی دل دہلا دینے والی ہے، جب گھروندے پانی میں بہہ جائیں، فصلیں تباہ ہو جائیں، مال مویشی ڈوب جائیں اور زندگی بھر کی جمع پونجی لمحوں میں دریا برد ہو جائے، تو دل پر کیا بیتتی ہے، یہ صرف وہی جان سکتا ہے جو خود اس کرب سے گزر رہا ہو۔
لیکن اے اہلِ درد، اے سیلاب کے متاثرین، میں تمہارے دکھ کو محض خبر نہیں سمجھتا، اسے اپنے دل پر محسوس کرتا ہوں۔ یہ سچ ہے کہ تمہارے گھر اجڑ گئے، لیکن تمہارے حوصلے ابھی بھی آباد ہیں۔ تمہاری زمینیں پانی لے گیا، مگر تمہارے بازو آج بھی کام کرنے کو تیار ہیں۔
تمہارے کھیت خالی ہو گئے، مگر تمہارے دل ہمت اور یقین سے بھرے ہوئے ہیں۔ میری یہ تحریر تمہارے آنسو پونچھنے کا نعم البدل نہیں، مگر یہ عزم ضرور دیتی ہے کہ یہ اندھیرا وقتی ہے۔ تم دوبارہ اپنے گھروں کو بساؤ گے، ہمارے کھیت کھلیان دوبارہ ہرے بھرے ہونگے۔
آپ ان لہروں کو بتاؤ گے کہ وہ تمہاری امید کو بہا نہیں سکیں۔ تمہاری ہمت، تمہارا صبر، اور ہم سب کی دعائیں — یہی ہماری اصل طاقت ہیں۔
جب مشکل وقت آتا ہے تو وہ صرف آزمائش نہیں ہوتا، وہ موقع ہوتا ہے، خود کو پہچاننے، نکھارنے اور آگے بڑھنے کا۔ قومیں اپنے کردار کی بلندی، حوصلے کی پختگی، اور اتحاد کی طاقت سے پہچانی جاتی ہیں۔
آج جب پاکستان کے مختلف علاقے سیلاب کی لپیٹ میں ہیں، ہمیں بطور قوم یہ فیصلہ کرنا ہے: کیا ہم ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھائیں گے، یا ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں گے؟
تاریخ گواہ ہے کہ جب زلزلے آئے، جب وبائیں پھیلیں، جب دہشتگردی نے خوف کے سائے پھیلائے، ہم ایک دیوار بنے۔ ہم نے اپنے وسائل، وقت، جذبات، سب کچھ یکجا کیا۔ ہم نے سڑکوں پر کھڑے ہو کر مدد مانگی بھی اور دی بھی۔ ہم نے کندھے سے کندھا ملا کر امید کا دیا روشن رکھا۔
اب بھی وقت ہے۔ سنسنی پھیلانے سے بہتر ہے کہ سینہ سپر ہوں۔ تنقید سے بہتر ہے تعمیر کریں۔ سوشل میڈیا پر الزام تراشی کے بجائے امدادی پوسٹس، رابطے، ہیلپ لائنز شیئر کریں۔
ہم وہ قوم ہیں جو راکھ سے اُٹھ کر آسمان کو چھوتی ہے۔
ہم وہ لوگ ہیں جو پانیوں میں ڈوبتے نہیں، راستے بناتے ہیں۔
پاکستان کی مٹی ہر مشکل میں ہمیں آواز دیتی ہے:
’گھبرانا نہیں، کھڑے ہونا ہے۔‘
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔