پاکستان نے بھاری درآمدی بل میں کمی اور توانائی کے بحران کے حل کے لیے سمندری حدود میں تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش تیز کر دی ہے۔
اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کے تعاون اور بین الاقوامی اشتراک سے جاری یہ منصوبہ ملکی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔
توانائی بحران اور گردشی قرضہ
غیر مؤثر انتظام کے باعث توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ 1.14 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے، جس نے ملکی معیشت پر گہرا بوجھ ڈال دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ توانائی کی ضروریات پوری کرنے اور درآمدی انحصار کم کرنے کے لیے مقامی سطح پر تیل و گیس کے نئے ذخائر کی دریافت ناگزیر ہے۔
پاکستان کے وسیع ذخائر
یورپی جریدے ماڈرن ڈپلومیسی کے مطابق، وینزویلا، سعودی عرب اور کینیڈا کے بعد پاکستان دنیا کے چوتھے بڑے آف شور تیل و گیس کے ذخائر رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا کا پاکستان سے معدنیات اور کانکنی کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر زور
یہ اعداد و شمار پاکستان کو خطے میں توانائی کے شعبے میں نمایاں اہمیت دیتے ہیں۔
پریمیم کوالٹی کا خام تیل
بین الاقوامی کمپنی سینرجیکو کے وائس چیئرمین اسامہ قریشی نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں حالیہ دریافت ہونے والا خام تیل پریمیم کوالٹی کا ہے اور اس میں ریفائنری تبدیلی کی ضرورت نہیں ہوگی۔
اس خصوصیت کے باعث پیداواری لاگت کم اور استعمال میں تیزی ممکن ہو سکے گی۔
سرمایہ کاری اور امکانات
وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم علی پرویز ملک کے مطابق، اگر 25 سے 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے تو ایک دہائی میں 10 فیصد ذخائر قابلِ استعمال بنائے جا سکتے ہیں۔
ان کے مطابق بروقت اقدامات سے پاکستان نہ صرف توانائی بحران پر قابو پا سکتا ہے بلکہ برآمدی صلاحیت بھی حاصل کر سکتا ہے۔
حکومتی عزم
حکومت کا مؤقف ہے کہ آف شور تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش اور بروقت استعمال قومی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ناگزیر ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پاک امریکا تجارتی معاہدہ پاکستانی معیشت کے لیے کتنا اہم ہے؟
ایس آئی ایف سی کی معاونت سے جاری یہ کاوشیں پاکستان کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری، روزگار کے مواقع اور درآمدی بل میں نمایاں کمی کا سبب بنیں گی۔