روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے پیر کو شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہانِ مملکت کے اجلاس کے عمومی اجلاس میں کہا کہ اگست میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ الاسکا سمٹ میں یوکرین کے بحران کے حل کے لیے کچھ ’سمجھوتے‘ طے پائے ہیں۔
پیوٹن نے چین کی جانب سے جاری جنگ کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں اور تجاویز کو سراہا۔ انہوں نے کہا:
’اس حوالے سے ہم چین کی ان کوششوں اور تجاویز کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو یوکرین کے بحران کے حل کے لیے دی گئی ہیں۔ میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ روسی اور امریکی صدور کی ملاقات (الاسکا) میں ہونے والے سمجھوتے بھی، مجھے امید ہے، اس مقصد کے حصول میں مددگار ہوں گے۔‘
یہ بھی پڑھیے پیوٹن۔ٹرمپ الاسکا ملاقات کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ اگست میں ٹرمپ اور پیوٹن نے الاسکا میں ملاقات کی تھی تاکہ یوکرین جنگ کے خاتمے کی کوششوں کو آگے بڑھایا جا سکے۔ پیوٹن نے کہا کہ انہوں نے اس ملاقات کے نتائج پر چین کے صدر شی جن پنگ سمیت دیگر عالمی رہنماؤں سے گفتگو کی ہے اور وہ اس اجلاس کے دوران دو طرفہ ملاقاتوں میں تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔
پیوٹن نے ایک بار پھر ماسکو کا مؤقف دہرایا اور یوکرین کے مغربی اتحادیوں کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ان کے مطابق: ’یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کی مغربی کوششیں اس بحران کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ یہ کسی ’حملے‘ کا نتیجہ نہیں بلکہ کیف میں ہونے والی بغاوت کا نتیجہ ہے جسے یوکرین کے مغربی اتحادیوں نے سہارا دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ روس اس اصول پر کاربند ہے کہ کوئی بھی ملک اپنی سلامتی کو دوسرے ملک کی قیمت پر یقینی نہیں بنا سکتا۔ یوکرین کے بحران کی بنیادوں کو درست کرنا اور سلامتی کا توازن قائم کرنا ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں:صدر زیلینسکی نے الاسکا میں امریکی اجلاس کو پیوٹن کی ’ذاتی فتح‘ قرار دیدیا
پیوٹن کے مطابق اقوام متحدہ کے اصول، بشمول ریاستوں کی خودمختاری کا احترام، آج بھی اہم ہیں۔
الاسکا ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے بھی گفتگو کو ’انتہائی نتیجہ خیز‘ قرار دیا تھا، تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ ابھی حتمی معاہدے تک نہیں پہنچا جا سکا۔ پیوٹن نے بھی کہا کہ ملاقات ’باہمی احترام کے تعمیری ماحول‘ میں ہوئی اور 3 گھنٹے طویل بات چیت کے بعد کچھ غیر واضح مسائل پر پیش رفت ہوئی۔














