کیلاش برادری کے لیے شادیوں کا قانون تیار، ‘بیوی یا شوہر کے مذہب چھوڑنے پر رشتہ ختم‘

بدھ 3 ستمبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کے شمال میں واقع چترال میں دنیا کے نایاب مذاہب میں سے ایک، کیلاش برادری کی شادی بیاہ کو قانونی حیثیت دینے کے لیے ایک قانون تیار کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کے مطابق اس قانون کے ذریعے نہ صرف شادی بیاہ کو قانونی حیثیت ملے گی بلکہ قدیم مذہبی تقاریب کو بھی محفوظ بنایا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: کیلاشی جوڑوں کے لیے بڑی خوشخبری، دیرینہ مطالبہ پورا ہونے کی راہ ہموار ہوگئی

خیبر پختونخوا حکومت نے کیلاش برادری کے مطالبے پر سال 2020 میں کیلاش شادی بیاہ کے مسودے پر کام شروع کیا تھا۔ اب تیاری کے بعد قانون سازی کمیٹی نے اس کی منظوری دے دی ہے اور اسے کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔

قانون ساز کمیٹی کے رکن اور صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کیلاش برادری کا یہ دیرینہ مطالبہ تھا۔ قانون سازی نہ ہونے کے باعث شادی، نکاح نامہ، فارم ’ب‘ اور دیگر دستاویزات کے حصول میں مشکلات کا سامنا تھا۔ اب ان تمام معاملات میں آسانی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ قانون ساز کمیٹی نے مسودہ منظور کر لیا ہے اور اب یہ بل کابینہ اور اسمبلی میں پیش ہو گا۔

کیلاش شادی کے حوالے سے قانون سازی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

کیلاش برادری خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر چترال کی 3 وادیوں، بریر، ریمبور اور بمبورت میں صدیوں سے آباد ہے۔ وقت کے ساتھ ان کی آبادی میں کمی آتی رہی اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تینوں وادیوں میں کیلاش عقیدے کے صرف 4109 افراد رہ گئے ہیں۔

سابق صوبائی وزیر اور کیلاش رہنما وزیر زادہ پہلی بار اس قانون سازی کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق شادیوں کی قانونی حیثیت نہ ہونے سے کئی مشکلات کا سامنا تھا۔ شادی شدہ جوڑوں کو نکاح نامے کے حصول میں دشواری ہوتی تھی کیونکہ نکاح خواں کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔

مزید پڑھیے: چترال: کیلاشی خاتون کی جانب سے امریکا سے 80 ہزار کتابوں کا تحفہ بھیجنے پر اعتراض کیوں؟

انہوں نے مزید بتایا کہ خواتین کو شوہر کے نام پر قومی شناختی کارڈ جاری نہیں ہوتا تھا اور انہیں یونین کونسل سے تصدیق کے بعد بیانِ حلفی جمع کرانا پڑتا۔ ہوٹلوں میں بھی جوڑوں کو کمرے دینے سے انکار کر دیا جاتا کیونکہ عملہ انہیں غیر شادی شدہ سمجھتا۔

ان کا کہنا تھا کہ شادی کے سرکاری ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی رجسٹریشن میں بھی مسائل پیش آتے تھے۔ ’اگر طلاق یا جہیز کے معاملات عدالتوں میں پہنچتے تو کوئی قانونی فریم ورک نہ ہونے کے باعث کارروائی ممکن نہیں تھی‘۔

وزیر زادہ کے مطابق قانون سازی کے بعد اب کیلاش شادیوں کو قانونی حیثیت مل جائے گی اور دستاویزات کا حصول آسان ہو گا۔ اس سے خواتین کو خصوصی حقوق بھی حاصل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسودے میں نیا کچھ شامل نہیں کیا گیا بلکہ وہ تمام روایات شامل ہیں جو کیلاش عقیدے کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری روایات کو قانونی شکل دی گئی ہے جو اب محفوظ ہوں گی اور ان میں مرضی سے ردو بدل کی گنجائش نہیں ہو گی‘۔

کیلاش میرج قانون میں کیا ہے؟

کیلاش میرج بل کی کاپی وی نیوز کو موصول ہوئی ہے جو پہلے کابینہ اور پھر اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ مسودہ 26 نکات پر مشتمل ہے جن میں کیلاش مذہب کی روایات کو شامل کیا گیا ہے۔

ان نکات میں شادی کی شرائط، روایتی رسومات اور شادی کی رجسٹریشن کا طریقہ کار درج ہے۔ شادیوں کی رجسٹریشن کیلاش قاضی کریں گے۔

طلاق، جہیز، وراثت اور بچوں کی حوالگی جیسے معاملات کو بھی قانونی دائرے میں شامل کیا گیا ہے جبکہ ماضی میں ہونے والی شادیاں بھی قانونی طور پر تسلیم کی جائیں گی۔

مزید پڑھیں: نیا کیلاش سروے منظر عام پر: ’مستقبل میں کیلاش لڑکوں کو شادی کے لیے لڑکی نہیں ملے گی‘

مسودے میں کیلاش مرد کو دوسری شادی کی اجازت دی گئی ہے تاہم پہلی بیوی کی اجازت کا ذکر شامل نہیں ہے۔ مزید یہ کہ اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک کیلاش مذہب چھوڑ دے تو شادی خودبخود ختم ہو جائے گی۔ دیکھیے یہ ویڈیو رپورٹ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp