وفاقی وزیر انسانی حقوق اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 10ویں جماعت کی طالبہ سے پرائیویٹ اکیڈمی کے پرنسپل کی جانب سے مبینہ زیادتی اور اسقاط حمل کے واقعے پر فوری اور شفاف انکوائری کا حکم دے دیا۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق راولپنڈی کے علاقے پیرودھائی کے نواحی علاقے خیابان سرسید کی رہائشی طالبہ نے پیر کو تھانے میں ایف آئی آر درج کروائی تھی جس میں الزام لگایا گیا کہ اکیڈمی کے پرنسپل نے متعدد بار اس سے زیادتی کی اور اسے زبردستی اسقاط حمل پر مجبور کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ایبٹ آباد: خاتون سے اجتماعی زیادتی، 3 ملزمان گرفتار
طالبہ نے اپنی شکایت میں کہا کہ پرنسپل نے شادی کی پیشکش کی تھی اور کہا تھا کہ وہ اس کے والدین سے بات کرے گا، تاہم اس کے بعد وہ قریب آنا شروع ہوگیا اور امتحانات میں اچھے نمبر دلانے کا جھانسہ دے کر تعلقات پر مجبور کیا۔
ایف آئی آر کے مطابق پرنسپل نے اپنے دفتر میں اسے زیادتی کا نشانہ بنایا اور جب طالبہ حاملہ ہوئی تو اس نے شادی کرنے کے بجائے اسے اسقاط حمل کی دوا دی۔ طالبہ نے الزام لگایا کہ پرنسپل نے بار بار زیادتی کی اور جب وہ دوبارہ وہ حاملہ ہوئی تو اس نے پھر استاد سے شادی پر اصرار کیا تو اس نے انکار کرتے ہوئے تشدد شروع کردیا۔
وزیر انسانی حقوق نے ملزم کی فوری گرفتاری اور واقعے پر رپورٹ طلب کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ طالبہ کو انصاف کی فراہمی ہر صورت یقینی بنائی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ میں باپ پر 17 سالہ بیٹی کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا الزام، ملزم گرفتار
قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 376 کے تحت ریپ کی سزا سزائے موت، یا کم از کم 10 سال اور زیادہ سے زیادہ 25 سال قید یا بقیہ عمر قید اور جرمانہ ہے۔ رواں برس مئی میں راولپنڈی کی سیشن عدالت نے اینٹی ریپ ایکٹ 2021 کے تحت ایک مجرم کو ریپ کے جرم میں سزائے موت سنائی تھی۔
پاکستان میں ریپ قوانین میں حالیہ برسوں میں بڑی اصلاحات کی گئی ہیں جن میں 2020 کے اینٹی ریپ آرڈیننس کے تحت فوری سماعت کے لیے خصوصی عدالتیں، چھ گھنٹے میں میڈیکو لیگل معائنہ اور نیشنل سیکس آفینڈر رجسٹری کا قیام شامل ہے، تاہم ماہرین کے مطابق نظام میں مسائل اب بھی موجود ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ریپ مقدمات میں سزا کی شرح صرف 0.5 فیصد ہے۔
نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے حال ہی میں کہا تھا کہ ریپ کا شکار ہونے والی صرف 41 فیصد خواتین رپورٹ درج کراتی ہیں اور ان میں سے بھی اکثر سماجی دباؤ کے باعث پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جنسی زیادتی کی شکار خواتین: پاکستان میں سیکیورٹی اور سیفٹی کے کیا قوانین ہیں؟
وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق 2021 سے جون 2025 تک اسلام آباد میں جنسی تشدد کے 567 کیسز درج ہوئے جن میں سے 200 بچوں سے متعلق تھے۔ اسی عرصے میں راولپنڈی پولیس نے اڈیالہ جیل کے ایک ملازم کو گرفتار کیا جس پر الزام تھا کہ اس نے اپنی 11 سالہ بھتیجی کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اسی ماہ ضلع دھمیال کی ایک خاتون نے اپنے مکان مالک کے بیٹے پر جنسی حملے کا الزام لگایا تھا۔