پنجاب میں ’نیفے میں پستول چلنے‘ کے بڑھتے واقعات، عوام اور ماہرین قانون کیا کہتے ہیں؟

ہفتہ 6 ستمبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پنجاب کے مختلف اضلاع میں حالیہ دنوں میں چھیڑ چھاڑ اور جنسی جرائم کے ملزمان کے خلاف کارروائیوں کے دوران تقریباً 6 واقعات ایسے سامنے آئے ہیں جن میں گرفتاری سے بچنے کی کوشش میں ملزمان کے ’نیفے میں پستول چلنے‘ کے باعث وہ اپنے نازک اعضا سے محروم ہو گئے۔

یہ واقعات سوشل میڈیا پر طنزیہ تبصروں کا باعث بنے اور عدالتی نظام کے ساتھ ساتھ پولیس کی حکمتِ عملی پر بھی سوالات اٹھنے لگے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز اور قصور کے واقعات

پہلا واقعہ 25 جولائی کو قصور میں سامنے آیا، جب ایک ویڈیو میں ایک نوجوان کمسن بچی کے ساتھ نازیبا حرکت کرتا دکھائی دیا۔

پولیس نے 27 جولائی کو ملزم کو گرفتار کیا تو اس کا پستول نیفے میں چل گیا اور وہ زخمی ہو گیا۔

اس کے بعد 22 اگست کو قصور میں ہی ایک اور ویڈیو وائرل ہوئی۔ ملزم کو گرفتار کرتے وقت پھر وہی صورتحال پیش آئی اور پستول چلنے سے وہ اپنے عضوِ تناسل سے محروم ہو گیا۔

ملتان، وہاڑی اور لاہور کے واقعات

24 اگست کو ملتان کے حرم گیٹ علاقے میں ایک طالبہ سے نازیبا حرکت کرنے والا ملزم پولیس گرفتاری سے بچتے ہوئے اپنے ہی پستول سے زخمی ہو گیا۔

31 اگست کو وہاڑی میں بھی چھیڑ چھاڑ کے ایک ملزم نے پولیس پر فائر کرنے کے لیے پستول نکالا جو نیفے میں چل گیا، اور ملزم ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

2 ستمبر کو لاہور میں ایک اور ملزم، جو 8 سالہ بچی سے زیادتی کے الزام میں پکڑا گیا تھا، دوبارہ گرفتاری کے دوران اپنے پستول سے خود ہی زخمی ہو گیا۔

سیالکوٹ کا تازہ واقعہ

5 ستمبر کو سیالکوٹ میں ماں بیٹی کے ساتھ نازیبا حرکت کرنے والا محمد عرفان عرف فورمین پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوا۔

گرفتاری کے دوران اس کا پستول چل گیا اور وہ بھی اپنے نازک اعضا سے محروم ہو گیا۔

اجتماعی زیادتی کے سنگین واقعات

اسی دوران لاہور میں اجتماعی زیادتی کے دو بڑے واقعات رپورٹ ہوئے۔

29 مئی کو لاہور کے علاقے چوہنگ میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان مقابلے میں 3 ڈاکو اپنی ہی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے۔

پولیس کے مطابق یہ ڈاکو ڈکیتی کے ساتھ ساتھ زیادتی کے ایک کیس میں بھی ملوث تھے۔

یکم اگست کو چوہنگ ہی میں 4 ملزمان نے شوہر کے سامنے بیوی سے اجتماعی زیادتی کی۔ پولیس کے مطابق بعد میں کارروائی کے دوران چاروں ملزمان ہلاک کر دیے گئے۔

ماہرِ قانون کی رائے

سینیئر وکیل فیصل چوہدری نے وی نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’نیفے میں پستول چلنے‘ کے یہ واقعات سوشل میڈیا پر طنزیہ انداز میں زیرِ بحث ہیں، مگر یہ ہمارے عدالتی نظام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔

ان کے مطابق اگر عدالتیں بروقت انصاف فراہم کریں تو پولیس کو ایسے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تاہم ان واقعات کی سچائی پر سوال اٹھتے ہیں اور یہ شفاف تفتیش کا تقاضا کرتے ہیں۔

عوامی ردعمل اور ضرورت

ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب میں جنسی جرائم کے خلاف پولیس کی کارروائیاں تیز ہو رہی ہیں، لیکن ’نیفے میں پستول چلنے‘ کی اصطلاح بار بار استعمال ہونے سے عوام میں طنزیہ بحث چھڑ گئی ہے۔

کچھ لوگ اسے فوری انصاف سمجھتے ہیں جبکہ دیگر اسے غیر قانونی اقدام قرار دیتے ہیں۔

 ماہرین کے مطابق پولیس اور عدالتی نظام کو چاہیے کہ شفاف تحقیقات کر کے قانون کے مطابق سزا دی جائے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو۔ ساتھ ہی، خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لیے مزید سخت قوانین اور ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp