پنجاب کے مختلف اضلاع میں حالیہ دنوں میں چھیڑ چھاڑ اور جنسی جرائم کے ملزمان کے خلاف کارروائیوں کے دوران تقریباً 6 واقعات ایسے سامنے آئے ہیں جن میں گرفتاری سے بچنے کی کوشش میں ملزمان کے ’نیفے میں پستول چلنے‘ کے باعث وہ اپنے نازک اعضا سے محروم ہو گئے۔
A sex predators is on the loose in streets and on roads in Sialkot…………
A sex offender riding in a bike touched inappropriately one of two girls entering their home in a town in Sialkot, city of Pakistan’s largest province Punjab. @OfficialDPRPP @DpoSialkot @MaryamNSharif pic.twitter.com/Cnc1SwiQdu
— Israr Ahmed Rajpoot (@ia_rajpoot) September 4, 2025
یہ واقعات سوشل میڈیا پر طنزیہ تبصروں کا باعث بنے اور عدالتی نظام کے ساتھ ساتھ پولیس کی حکمتِ عملی پر بھی سوالات اٹھنے لگے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز اور قصور کے واقعات
پہلا واقعہ 25 جولائی کو قصور میں سامنے آیا، جب ایک ویڈیو میں ایک نوجوان کمسن بچی کے ساتھ نازیبا حرکت کرتا دکھائی دیا۔
پولیس نے 27 جولائی کو ملزم کو گرفتار کیا تو اس کا پستول نیفے میں چل گیا اور وہ زخمی ہو گیا۔
اس کے بعد 22 اگست کو قصور میں ہی ایک اور ویڈیو وائرل ہوئی۔ ملزم کو گرفتار کرتے وقت پھر وہی صورتحال پیش آئی اور پستول چلنے سے وہ اپنے عضوِ تناسل سے محروم ہو گیا۔
ملتان، وہاڑی اور لاہور کے واقعات
24 اگست کو ملتان کے حرم گیٹ علاقے میں ایک طالبہ سے نازیبا حرکت کرنے والا ملزم پولیس گرفتاری سے بچتے ہوئے اپنے ہی پستول سے زخمی ہو گیا۔
31 اگست کو وہاڑی میں بھی چھیڑ چھاڑ کے ایک ملزم نے پولیس پر فائر کرنے کے لیے پستول نکالا جو نیفے میں چل گیا، اور ملزم ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
28 yrs old Belgian woman was raped & sexually assaulted for 5 days in Punjab province, #Pakistan.
She was found on the street with her hands & feet tied.
Her horrific story is the testimony that Pak is unsafe for women!#PakistanSharmindaHai@amritabhinder @LevinaNeythiri pic.twitter.com/V0QOCBJy7Z— ManhasAnupama (@manhas_anupama) March 23, 2025
2 ستمبر کو لاہور میں ایک اور ملزم، جو 8 سالہ بچی سے زیادتی کے الزام میں پکڑا گیا تھا، دوبارہ گرفتاری کے دوران اپنے پستول سے خود ہی زخمی ہو گیا۔
سیالکوٹ کا تازہ واقعہ
5 ستمبر کو سیالکوٹ میں ماں بیٹی کے ساتھ نازیبا حرکت کرنے والا محمد عرفان عرف فورمین پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوا۔
گرفتاری کے دوران اس کا پستول چل گیا اور وہ بھی اپنے نازک اعضا سے محروم ہو گیا۔
اجتماعی زیادتی کے سنگین واقعات
اسی دوران لاہور میں اجتماعی زیادتی کے دو بڑے واقعات رپورٹ ہوئے۔
29 مئی کو لاہور کے علاقے چوہنگ میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان مقابلے میں 3 ڈاکو اپنی ہی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے۔
پولیس کے مطابق یہ ڈاکو ڈکیتی کے ساتھ ساتھ زیادتی کے ایک کیس میں بھی ملوث تھے۔
یکم اگست کو چوہنگ ہی میں 4 ملزمان نے شوہر کے سامنے بیوی سے اجتماعی زیادتی کی۔ پولیس کے مطابق بعد میں کارروائی کے دوران چاروں ملزمان ہلاک کر دیے گئے۔
ماہرِ قانون کی رائے
سینیئر وکیل فیصل چوہدری نے وی نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’نیفے میں پستول چلنے‘ کے یہ واقعات سوشل میڈیا پر طنزیہ انداز میں زیرِ بحث ہیں، مگر یہ ہمارے عدالتی نظام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔
Another horrifying case from kasur, Punjab. A minor girl was nearly assaulted while playing in the street on July 25.
This is the same city where 6 year old Zainab was brutally assaulted. Why do such vile crimes keep happening there? pic.twitter.com/wShVRGHVFd
— Faizan (@faizannriaz) July 28, 2025
ان کے مطابق اگر عدالتیں بروقت انصاف فراہم کریں تو پولیس کو ایسے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تاہم ان واقعات کی سچائی پر سوال اٹھتے ہیں اور یہ شفاف تفتیش کا تقاضا کرتے ہیں۔
عوامی ردعمل اور ضرورت
ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب میں جنسی جرائم کے خلاف پولیس کی کارروائیاں تیز ہو رہی ہیں، لیکن ’نیفے میں پستول چلنے‘ کی اصطلاح بار بار استعمال ہونے سے عوام میں طنزیہ بحث چھڑ گئی ہے۔
کچھ لوگ اسے فوری انصاف سمجھتے ہیں جبکہ دیگر اسے غیر قانونی اقدام قرار دیتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پولیس اور عدالتی نظام کو چاہیے کہ شفاف تحقیقات کر کے قانون کے مطابق سزا دی جائے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو۔ ساتھ ہی، خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لیے مزید سخت قوانین اور ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔