نیپال میں سوشل میڈیا پابندی کے خلاف ابھرنے والی ’جنریشن زی‘ کی احتجاجی تحریک نے خطے میں ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے، مقامی اور بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق ان احتجاجی مظاہروں میں شدت آ گئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ان جھڑپوں کے دوران اب تک 19 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
نیپالی حکومت نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام اور یوٹیوب سمیت 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بند کر دیے ہیں جبکہ دارالحکومت کٹھمنڈو میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیپال: سوشل میڈیا پر پابندی کیخلاف احتجاج اور ہلاکتیں، وزیراعظم مستعفی ہوگئے
بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق نیپالی نوجوان رہنماؤں نے مظاہرین کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور مقامی سطح پر حکومت کو سخت دباؤ کا سامنا ہے۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت اس تحریک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے اور نیپال سمیت خطے کے دیگر ممالک میں اندرونی مداخلت کے ذریعے اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے۔

ماہرین کے مطابق بھارت کے ہندوتوا نظریے پر مبنی توسیع پسندانہ عزائم کوئی نئی بات نہیں، اس سے قبل 2019 میں بھارت نے نیپال کے متنازع علاقے کالاپانی، لیپولیخ اور لمپیادھورا کو اپنے نقشے میں شامل کیا تھا، جس پر نیپال نے شدید احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔
مزید پڑھیں: نیپال میں پرتشدد مظاہرے جاری، اقوام متحدہ نے تعاون کی پیشکش کردی
اسی طرح مالدیپ میں ’بھارت نکل جاؤ‘ تحریک کے دوران بھارتی مداخلت کے ٹھوس شواہد سامنے آئے اور وہاں کی حکومت کے 3 عہدیدار وزیراعظم مودی کو ’مسخرہ، دہشت گرد‘ اور ’اسرائیل کی کٹھ پتلی‘ قرار دے چکے ہیں۔
بنگلہ دیش میں بھارت کا اثر و رسوخ شیخ حسینہ کی حکومت کے ذریعے قائم رہا جبکہ ’تیستا دریا‘ کے تنازعے اور پاکستان کے ساتھ ’سندھ طاس معاہدے‘ کی معطلی نے بھارت کی آبی جارحیت کو مزید بے نقاب کیا۔
اسی طرح ماضی میں بھی سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کی سرپرستی سے لے کر 2022 کے فسادات تک بھارتی کردار پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: نیپال میں فیس بک، یوٹیوب اور ایکس بند کرنے کا اعلان کیوں کیا گیا؟
پاکستان کے خلاف دہشت گرد تنظیموں کی حمایت پر سابق بھارتی آرمی چیف بکرم سنگھ کے بیانات بھی اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ بھارت خطے میں امن اور خود مختاری کو نقصان پہنچانے والا ایک علاقائی سلامتی کو غیر مستحکم کرنے والا ملک بن چکا ہے۔














