ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور بڑھتی ہوئی گرمی امریکی عوام کو زیادہ میٹھے مشروبات اور ٹھنڈی اشیا (جیسا کہ جوس، سوڈا اور آئس کریم) استعمال کرنے پر مجبور کر رہی ہے، جو صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سرخ گوشت اور چکنائی والی غذا حاملہ خواتین میں ذیابیطس کا خطرہ بڑھا سکتی ہے: تحقیق
تحقیق میں 2004 سے 2019 تک امریکی گھروں کی خوراک خریدنے کے اعداد و شمار کو مقامی موسم کے ڈیٹا کے ساتھ موازنہ کیا گیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ جب درجہ حرارت میں تقریباً 1.8 ڈگری فارنہائٹ کا اضافہ ہوا تو ہر شخص کی روزانہ شکر کی کھپت میں اوسطاً 0.7 گرام اضافہ ہوا۔یہ نتائج جریدے نیچر کلائمیٹ چینج میں شائع ہوئے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلے ہی زیادہ چینی کے استعمال کو موٹاپے، ذیابیطس اور دل کی بیماریوں سے جوڑا جاتا ہے، لیکن اگر اس پر ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات بھی شامل ہو جائیں تو صورتِ حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
کم آمدنی والے طبقے زیادہ متاثر
تحقیق سے پتا چلا کہ سب سے زیادہ اضافہ ان گھروں میں ہوا جن کی آمدنی اور تعلیمی سطح کم ہے۔ ان خاندانوں میں پہلے ہی سستی اور آسانی سے دستیاب میٹھے مشروبات کا استعمال زیادہ ہے۔

آئندہ خدشہ
ماہرین کا اندازہ ہے کہ اگر عالمی درجہ حرارت اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو 2095 تک فی کس روزانہ شکر کا استعمال تقریباً 3 گرام تک بڑھ سکتا ہے۔
ماہرین کی رائے
یونیورسٹی آف کیمبرج کی محقق شارلٹ کوکووسکی کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی انسانی صحت پر کس طرح کم سمجھے جانے والے مگر اہم اثرات ڈال رہی ہے۔

ان کے مطابق سب سے زیادہ خطرہ ان لوگوں کو ہے جن کے پاس محدود وسائل ہیں اور جو پہلے ہی خوراک سے متعلق بیماریوں میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔














