سرحد پر خاردار تاروں کی قطاریں بڑی مہارت سے دونوں گاؤں کے بیچ اُگا دی گئی تھیں، دونوں طرف ایک جیسے مکین، ایک جیسے کھیت کھلیان اور ایک جیسے مویشی، سب حیرت اور بے بسی کی تصویر تھے۔
کچھ دہائیاں پہلے باہر والوں نے زمین پر ایک لکیر کھینچی تھی اور کروڑوں کو گھر سے بے گھر کر دیا تھا۔
پھر اپنے ہی لوگوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے اُس زخم پر نئی مہر ثبت کر دی تھی۔
دلجیت سنگھ اپنی زمین پر کھیتی باڑی کرتے ہوئے روز خار دار تاروں کے سامنے جا کھڑا ہوتا، اپنے قدموں تلے بچھی زمین دیکھتا، پھر باڑ کے اُس پار پڑی مٹی پر نظریں گاڑھ دیتا۔
’ایہہ مٹی۔۔۔ اُدھر بھی ایہو جیہی، اِدھر بھی ایہو جیہی۔
ادھر وی دھان دی فصل کٹّن لئی تیار، اُدھر وی دھان دی فصل تیار۔
تے مال مویشی وی اکّو جیہے،
اسی تے جنماں جنماں توں اکٹھے آں، قدرت نے سانجھاں پیدا کیتا، تے ایہہ رکاہٹ کیوں؟‘
دلجیت سنگھ گھر آتے ہی اپنی بچیوں سے موج مستی کرتا، بیوی پال کور کے ہاتھ کا بنا ساگ روٹی کھاتا اور پھرصحن میں بندھی اپنی بھینسوں کو چارہ ڈالتا۔ جب اس کی چہیتی بھینس بُھولی چارہ کھاتی تو دلجیت اس کے گلے میں بندھی گھنٹی بجاتا اور مسکرا کر بولتا۔
’ہائے میری بُھولی۔۔۔ ویکھ تو کِنی سوہنی لگدی اے!‘
بھولی فوراً منہ اوپر اٹھاتی بڑی بڑی آنکھوں سے دلجیت کو دیکھتی اور زور کی ڈکارتی۔
دلجیت کی بیوی پال ہنستے ہوئے دلجیت کو چھیڑتی: ’ویکھیا؟ تیری گل دا جواب وی دیندی اے ایہہ!‘
دلجیت پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا
اور بھولی کے قریب جھک آتا تو بھولی لاڈ سے اپنی بھاری پیٹھ دلجیت کے سینے سے رگڑنا شروع کر دیتی۔
اُدھر باڑ کے دوسرے کنارے پر مولا بخش ریڈیو کان سے لگائے بیٹھا ہے۔ اس کی بیوی صغراں تنور میں روٹیاں سینک رہی ہے۔ بچے پکے صحن میں کھیل میں مصروف ہیں۔ گھر کے دوسری جانب کچے میں مولا بخش کی بھینسیں چارہ کھا رہی ہیں۔ سب سے پرانی بھینس ’بھلّی‘ مولا بخش کو سب سے زیادہ عزیز ہے۔
’سنتی ایں صغراں؟‘ اُس نے بیوی کو پکارا۔
ریڈیو کی کرخت آواز ابھری:
’پڑوسی ملک کہندا اے ساڈے حصے دا پانی نہیں چھڈے گا۔‘
صغراں کے ہاتھ سے گرم روٹی کی چنگیر نیچے آ گری۔
’ہائے اللہ! تاں ساڈے کھیت بنجر ہو جان گے؟‘
مولا بخش نے ٹھنڈی آہ بھری:
’اللہ خیر کرے، حالات تاں ہور وی ابتر ہوندے پئے نیں۔‘
اس بار ساون کا مہینہ بھی خوب برسا اور رخصت ہوا۔ آج بھادوں کی دوسری رات تھی۔ صبح سے برستی موسلا دھار بارش بس ایک گھنٹہ پہلے تھمی تھی۔ فضا میں حبس اور وحشت گھلی ہوئی تھی۔ برگد کے درخت کے نیچے دلجیت سنگھ گہری نیند سو رہا تھا۔ بھیگی ہوا کے جھونکے، برگد کی بوڑھی لٹکتی شاخوں کی سرسراہٹ، جھینگروں کی جھنکار اور جگنوؤں کی جھلملاہٹ نے ایک عجب سماں باندھ رکھا تھا۔
اچانک صدا گونجی:
گلمیت سنگھ (چھت پر چڑھ کر چیختے ہوئے):
’او دلجیتے! راوی دا پانی پنڈ وچ وڑ آیا اے! چھیتی کرو، سارے اٹھو، باہر نکلو چھیتی۔‘
دلجیت ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اس کی بیوی پال اور بچے بھی بھاگے بھاگے صحن میں نکل آئے۔
پال (گھبرا کر):
’ہائے دلجیت! اینی جلدی کیویں مال مویشی نوں لے کے جاواں؟‘
اندھیری رات میں پانی ہچکولے لیتا تیزی سے بڑھتا چلا آرہا تھا۔ چاروں طرف چیخ و پکار مچی تھی۔ کوئی اپنے بچوں کو پکار رہا تھا، کوئی مویشیوں کو کھولنے کی کوشش کررہا تھا تو کوئی گھر کا سامان سمیٹ رہا تھا۔
دلجیت کی چہیتی بھینس بُھولی مسلسل ڈکار رہی تھی، جیسے آنے والے طوفان کو بھانپ گئی ہو۔
سیلاب کا پانی شور مچاتا، رکاوٹیں توڑتا بڑھتا چلا آیا۔ لمحوں میں گلیوں سے ہوتا گھروں کے اندر داخل ہو گیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے پانی پیروں سے کمر تک پہنچ گیا۔
پال (ہتھ جوڑ کے، کانپتی آواز میں):
’گرونانک دی کرپا نال ایہو پانی ایتھے رک جاوے۔۔۔ ربّا رحم کر!‘
مگر پانی نہ رُکا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سینے تک آن پہنچا۔
ہر گلی میں ہا ہا کار مچی ہوئی تھی۔ بچے ماں کی گود سے چمٹے رو رہے تھے، مرد مویشیوں کی رسی پکڑ کر کھینچ رہے تھے مگر بے بس تھے۔ بھولی ڈر کے مارے زور زور سے ڈکار رہی تھی۔
گلمیت سنگھ (چھت سے آواز دیتے ہوئے):
’او دلجیتے! زنانیاں بچیاں نوں چھت اُتے لے آؤ، پانی ہو ریا تیزـ‘
دلجیت (بچوں کا ہاتھ تھامتے ہوئے):
’پالے، تُو بچیاں نوں چُک کے چھت تے جا، میں بھولی نوں چھڑاون دی کوشِش کردا واں!‘
پال (روتے ہوئے):
’ایہہ ویلا جان بچاؤن دا اے، مال مویشی رب دے حوالے کرو! پہلے بچیاں نوں سنبھالو۔‘
دلجیت تڑپ کر بولا: ’ایس طرح کِمیں چھڈ دیاں پال۔۔۔ ایہہ وی میری بچیاں نیں۔‘
پال رندھی ہوئی آواز میں بولی: ’جانوراں تے مویشیاں لئی کجھ سرحداں یا قانون نئیں ہوندا دلجیت۔۔۔ ایہہ انسان نئیں جو سرحد پار کرن تے سزا وجوں پھڑیا جاوے۔‘
اسی اثنا میں گاؤں کے کچھ جوان بانس اور لکڑیاں لے آئے۔ سب مل کر عورتوں اور بچوں کو باری باری چھتوں پر چڑھانے لگے۔ شور کے بیچ اک دوسرے کو حوصلہ دینے کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں:
کسی نے پکارا:
’حوصلہ رکھو! پانی ہور تھوڑا چڑھے گا تے فر لہہ جائے گا!‘
دوسرا بولا:
’سارے اکٹھے رہو، کسے نوں ہکلا نہ چھڈو‘
گاؤں کے ایک کونے کے گھر کے قریب پرانی ڈونگی بندھی تھی۔ جوانوں نے مل کر اسے کھولا اور بچوں اور عورتوں کو اس میں بٹھانے لگے۔ پانی تیز تھا مگر سب نے کندھے سے کندھا ملا لیا۔
دلجیت (بھولی کی رسی پکڑے آنسو بھری آواز میں):
’او بھولیے۔ مینوں معاف کردئیں۔ رب نے چاہئیا تے فیر مِلاں گے۔‘
بھینس زور سے ڈکارتی رہی، جیسے سمجھ گئی ہو کہ اس بار جدائی سچی ہے۔
بارش تھم چکی تھی مگر سیلابی ریلا منہ زور تھا آسمان پر بادل ابھی بھی منڈلا رہے تھے۔ گاؤں والے ایک دوسرے کو سہارا دیتے، روتے بچوں کو بہلاتے، مویشیوں کی ہڑبونگ سہتے ہوئے خشکی کی تلاش میں چل پڑے تھے۔
راوی بپھرا ہوا اپنے راستے بناتا، خار دار تاروں کو روندتا، باڑ کو پچھاڑتا پڑوسی ملک کی سرحد پار کر چکا تھا۔ خار دار تاریں اور پانی بند کرنے کا اعلان جس پر برسوں کی سیاست اور نفرت کی مہر لگی ہوئی تھی، دریا کے بھپرے طوفان نے لمحوں میں مٹا دی۔
دریائے راوی کی برسوں سے سوکھی بنجر زمین جہاں لوگ پکے مکان تعمیر کرکے مطمئن بیٹھے تھے، اب پانی کی لپیٹ میں آ چکی تھی۔ دریا بھولا نہیں تھا، وہ جانتا تھا اس کا اپنا راستہ کہاں ہے۔ اب وہ سمندر کا روپ دھارے، گھروں، کھیتوں، کھلیانوں اور مویشیوں کو نگلتا چلا جا رہا تھا۔
مولا بخش کے گاؤں پر بھی دریا ٹوٹ پڑا۔ صحن میں کھڑا مولا بخش اپنے مویشیوں کی گردن سے رسی اتار رہا تھا ـ اپنی سب سے پرانی عزیز بھینس بھلّی کے گلے سے پٹہ اور گھنٹی اتارتے ہوئے اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔
مولا بخش (نم آواز میں بھینس کے کان کے قریب):
’جا بھلّی جا۔۔ رب دے حوالے۔‘
بھلّی پانی کی موجوں میں ڈولتی ہوئی سہم کر مولا بخش کی جانب بڑھی۔
صغراں (بیٹوں کو سینے سے لگائے، آنکھوں سے آنسو بہاتے):
’او مولا بخشا۔۔۔ بھلّی نوں وی نال لے چل! ایہنوں کیویں چھڈ آواں؟‘
مولا بخش نے آنکھیں بند کرلیں۔ اس کی آواز بھرّا گئی:
’صغراں۔۔۔ پانی دے زور اگے کوئی کس طرح کھلّو سکدا اے؟ ایہہ بھلّی نوں بچانا۔۔۔ اپنی جانویں کھوان دے برابر اے۔‘
پانی کا شور بڑھتا گیا۔ گاؤں والے چیختے، مویشی شور مچاتے، عورتیں بچوں کو تھامے درختوں اور اونچی جگہوں کی طرف بھاگ رہے تھے۔
بھلّی کے گلے سے اتری گھنٹی مولا بخش کے ہاتھ میں لرز رہی تھی۔ اُس لمحے یہ گھنٹی محض ایک زیور نہیں تھی، بلکہ برسوں کی محنت اور محبت کی نشانی تھی۔
مولا بخش کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ اُس نے بھلّی کی طرف آخری نظر ڈالی اور کہا:
’کسان لئی اپنی مج نوں چھڈ دینا۔۔۔ اپنی دھی نوں کھو دینے ورگا ہوندا اے۔ پر ہُن۔۔۔ ساڈے کول اختیار کوئی نہیں۔‘
پانی نے قدموں کو جکڑ لیا۔ بھلّی بھاری سانسیں لیتی، سیلابی ریلے میں بہتی چلی گئی۔ اور مولا بخش لرزتے ہونٹوں سے بس ایک ہی لفظ دہراتا رہ گیا:
’جا بھلّی جا۔۔۔ رب دے حوالے۔‘
اُدھر دلجیت سنگھ کی چہیتی بُھولی ریلے کے تھپیڑیں سہتی، اپنا منہ پانی سے اوپر کیے بے بسی سے بہتی چلی جارہی تھی۔ دلجیت کے گاؤں کی سرحد کب پیچھے رہ گئی، بھولی کو کچھ خبر نہ تھی۔ خار دار تاریں اور باڑ کب کی بہہ گئی تھیں، اب تو صرف پانی تھا، طوفانی ریلہ تھا، اور بے قابو راوی دریا تھا۔
’ہائے۔۔۔! ایہہ تے مج اے۔۔۔ کوئی سنبھالو، لہہ جائے گی!‘ کسی نے شور مچایا۔
قریب کے گاؤں کے لوگ، جو خود اپنی جانیں بچانے کی جدوجہد کر رہے تھے، ڈنڈے اور رسیاں لے کر دوڑے۔ ایک نوجوان نے چھلانگ لگائی:
’پکڑ لو! ایہہ لہہ نہ جائے‘
کئی ہاتھ بڑھے، کسی نے سینگوں کو پکڑا۔ بھولی زور زور سے ڈکار رہی تھی۔
آخرکار، بڑی مشقت کے بعد لوگوں نے بھولی کو کنارے پر کھینچ لیا۔ پانی سے بھیگی اس کی کالی چمکدار کھال سے کیچڑ ٹپک رہا تھا۔ وہ ہانپ رہی تھی۔
’شکر اے سوہنے رب دا۔۔۔ ایہہ بچ گئی!‘ ایک بوڑھا کسان کراہتی آواز میں بولا۔
لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ بُھولی، جو ریلے کے تھپیڑوں سے لڑتی ہوئی دریا پار کر آئی تھی، اب اجنبی گاؤں کی خشکی پر کھڑی تھی۔
گاؤں کے چوراہے پر رسی سے باندھی ایک طرف دلجیت سنگھ کی بھولی تھی اور اردگرد مجمع لگا تھا۔ ہر کوئی اپنے اپنے دعوے کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔
’ایہہ میری مج اے!‘ ایک کسان بولا، ’میں پچھلے سال ای میلے توں لئی سی۔‘
دوسرا جھٹ سے بول اٹھا: ’نہیں جی! ایہہ تے میری اے، میرا حق اے! اگر میں جھوٹ بولا تے میری پانچ گائیاں تہاڈی ہون!‘
تیسرا ہنس کر بولا: ’ویکھ لو جی! ایہہ تے ساری دنیا دی مج بن گئی اے۔‘
ایک کسان چلایا: ’ویکھیا؟ کہیں ایہہ اوہی مج توں نہیں اے جیہڑی مولا بخش رو رو کے چھڈ آیا سی‘
شور اتنا بڑھ گیا کہ کسی نے کہا: ’پولیس نوں بلا لو، ایہہ مسئلہ تے اینج نئیں حل ہونا۔‘
اسی دوران خبر مولا بخش تک پہنچی۔ دل دھڑکنے لگا، اس نے سوچا:
’کاش ایہہ میری بھلّی ہی ہوے؟‘
وہ ہانپتا کانپتا مجمع میں پہنچا۔ جیسے ہی بُھولی پر نظر پڑی، اس کے لبوں سے بے اختیار نکلا!
’ہائے ربّا۔۔۔ میری بھلّی۔۔۔
لیکن دوسرے ہی لمحے اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ وہ اس کی بھلّی نہیں تھی۔
وہ دل ہی دل میں بڑبڑایا!
’ایہہ تے میری بھلّی جیسی ہی اے!
بھولی یکدم چوکنّی ہوئی۔ اس کے کان کھڑے ہوگئے۔ اس نے سر اٹھایا، جیسے کسی برسوں پرانی آواز کو پہچان لیا ہو۔ وہی دلجیت سنگھ جیسی پیار بھری دلگیر آواز۔۔۔ بُھولی سب شور شرابہ بھول کر صرف ایک صدا سن رہی تھی:
’ہائے میری بُھولی، کِنی سوہنی لگدی اے‘
اچانک بُھولی نے زور کی ڈکار بھری، رسی کو جھٹکا دیا اور دم ہلاتی سیدھی مولا بخش کی طرف بڑھی اور اس کے قریب جا کر اپنی بھیگی پیٹھ اس کے سینے سے رگڑنے لگی۔
مولا بخش کانپتے ہاتھوں سے بھلّی کو سہلاتے ہوئے سوچنے لگا :
’جیویں ایہہ لاوارث مج نوں کسے نے سنبھال لیا اے، اوہو جیہے طرح میری بھلی نوں وی کوئی چنگا بندہ ضرور بچا لئیا ہووے گا۔‘
مولا بخش بھولی کو سہلاتے ہوئے رندھی ہوئی آواز میں بولا:
’ہاں۔۔۔ تُو ہی میری بھلّی ایں‘
مجمع ساکت ہوگیا۔ ایک لمحے کو سب کی زبانیں گنگ ہوگئیں۔ جیسے دریا کی طغیانی کے بیچ ایک معجزہ رونما ہوگیا ہو۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔