’مریخ پر جینا اور مرنا چاہتا ہوں‘، ایلون مسک کی خواہش

جمعرات 2 اکتوبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسپیس ایکس کے بانی اور ٹیسلا کے سربراہ ایلون مسک نے ایک بار پھر اپنے دیرینہ خواب کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مریخ پر جینا اور مرنا چاہتے ہیں۔

ایلون مسک نے یہ بات اپنی سوشل میڈیا ایپ ’ایکس‘ پر ایک صارف کے پیغام کے جواب میں کہی۔

یہ بھی پڑھیں: دولت کمانے کی دوڑ، ایلون مسک نے نیا ریکارڈ اپنے نام کرلیا

صارف نے سابق امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ کا ایک قول شیئر کیا تھا جس میں امریکی پرچم، انگریزی زبان اور امریکی قوم سے وفاداری پر زور دیا گیا تھا۔

ایلون مسک نے جواب میں لکھا کہ میرے پاس صرف ایک پاسپورٹ ہے اور ہمیشہ امریکا ہی میرا وطن رہے گا۔ میں یہیں جیوں گا اور یہیں مروں گا، یا پھر مریخ پر جو امریکا ہی کا حصہ ہوگا۔

مسک کے اس بیان پر صارفین نے مختلف رائے کا اظہار کیا۔ کچھ نے ان کے عزم کو سراہا، جبکہ بعض نے سوال اٹھایا کہ اگر مریخ کو خود کفیل ہونا ہے تو کیا وہ امریکا سے آزاد نہیں ہونا چاہیے؟

یہ بھی پڑھیں: ’۔۔۔ ہم ہیں تیار چلو‘، ناسا نے چاند پر گاؤں اور مریخ پر قدم جمانے کا وقت بتادیا

یاد رہے کہ اسپیس ایکس مریخ پر بسانے کے منصوبے کے تحت پہلے بغیر انسان کے مشن کی تیاریوں میں مصروف ہے، جس کے بعد وہاں انسانی آبادکاری کی راہ ہموار کی جائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

سروائیکل کینسر، لاعلمی سے آگاہی تک

ملک کے مختلف علاقوں میں بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کا الرٹ جاری

پرندوں کا انوکھا ملاپ: ماحولیاتی تبدیلی سے مخلوط نسل بچے پیدا ہونے لگے؟

اسلام آباد: وزیر داخلہ محسن کی آزاد کشمیر میں زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں کی عیادت

صحافیوں پر تشدد: وزیرداخلہ محسن نقوی کا نوٹس، آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ طلب کرلی

ویڈیو

میں خان صاحب کو پرانے زمانے سے جانتا ہوں،آپ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے! ڈمی مبشر لقمان

مونال کی جگہ اسلام آباد ویو پوائنٹ اب تک کیوں نہیں بنایا گیا؟

مریم نواز پنجاب کے حق کے لیے آواز ضرور اٹھائیں گی، خرم دستگیر

کالم / تجزیہ

پاکستان اور سعودی عرب: تاریخ کے سائے، مستقبل کی روشنی

لالو کھیت کا لعل۔۔ عمر شریف

نیتن یاہو کی معافیاں: اخلاقی اعتراف یا سیاسی مجبوری؟