’سعودی وژن 2030 اور دفاعی معاہدہ پاکستان کے لیے ممکنہ ترقی کی نوید ثابت ہو سکتے ہیں‘

اتوار 5 اکتوبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کی رپورٹ کے مطابق سال 2025 کے پہلے 6 ماہ یعنی جنوری سے جون 2025 تک 2 لاکھ 42 ہزار 337 پاکستانی ملازمتوں کے حصول کے لیے سعودی عرب گئے۔ بیرونِ ملک ملازمت کے لیے جانے والے پاکستانیوں کی کل تعداد کا یہ 70 فیصد ہے۔ مجموعی طور پر اِس وقت 26 لاکھ 40 ہزار پاکستانی سعودی عرب میں ملازمتیں کرتے ہیں اور سعودی عرب پاکستان کے لیے زرمبادلہ ترسیلاتِ زر کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے شروع کیا گیا وژن 2030 جو کہ ایک ہمہ جہت بے مثال ترقیاتی منصوبہ ہے پاکستانی اُس وژن کے تحت شروع کیے گئے منصوبوں میں بھی ملازمتیں حاصل کررہے ہیں۔ 2023 سے اب تک قریباً 12 لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب سے دفاعی معاہدہ برادرانہ رشتوں کا تسلسل ہے، وزیراعظم شہباز شریف

25 ستمبر کو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخ ساز دفاعی معاہدہ طے پایا جس کے تحت پاکستان اور سعودی عرب اب نہ صرف معاشی بلکہ دفاعی اور دفاعی پیداوار کے شعبوں میں بھی ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اس سال کسی بھی وقت پاکستان کا دورہ کر سکتے ہیں اور اِس دورے کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کے مابین نہ صرف زرعی، صنعتی بلکہ دفاعی پیداوار کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے منصوبے شروع ہونے کا اِمکان بھی ہے۔

وژن 2030 اور دفاعی تعاون، پاک سعودی تعاون کا ممکنہ منظر نامہ کیا ہو سکتا ہے؟

اس ممکنہ منظر نامے کے تحت پاک سعودی تعاون میں دفاعی شعبے کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر، توانائی، ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ہیلتھ، زراعت، فوڈ سیکیورٹی کے منصوبے شامل ہیں۔

پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے؟

سعودی سرمایہ کاری پاکستان میں بڑھے گی، جس سے نئے کارخانے، ٹیکنالوجی پارکس اور اکنامک زونز بنیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ لاکھوں پاکستانیوں کے لیے سعودی عرب میں ملازمتوں کے نئے مواقع کھلیں گے، پاکستانی برآمدات مثال کے طور پر خوردنی اشیا، ٹیکسٹائل، انجینیئرنگ مصنوعات کے لیے سعودی مارکیٹ کھلے گی، اس کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی اپ گریڈ اور مشترکہ تحقیقاتی ادارے قائم ہوں گے۔

مشترکہ دفاعی پیداوار کا اِمکان

اس سال اپریل میں سعودی نائب وزیرِدفاع طلال بن عبداللہ العتیبی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں مشترکہ فوجی مشقوں کے ساتھ ساتھ مشترکہ دفاعی پیداوار پر بھی اِتفاق کیا گیا تھا۔ اُن ملاقاتوں میں سعودیہ کی جانب سے کہا گیا کہ ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ، ٹیکنالوجی کو مقامی طور پر تیار کرنا یعنی لوکلائزیشن کو بھی دفاعی معاہدے کا حصہ بنایا جائےگا۔

اگر دیکھا جائے تو اِس دفاعی معاہدے کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اِس سے پہلے وژن 2030 کے تحت جو تعاون چل رہا تھا اُس میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مشترکہ دفاعی پیداوار شروع ہونے سے جو نئے منصوبے شروع ہوں گے اُن میں پاکستانیوں کے لیے مزید ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔

دفاعی صنعت میں مشترکہ منصوبے جیسا کہ مشینری، ڈرون، ٹیکنالوجی، اسلحہ، ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے ساتھ ساتھ ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ ممکن فوکس ہوں گے جس سے پاکستانی انجینیئرز اور ٹیکنیشنز کو ملازمتیں ملیں گی، اور پاکستان اپنی دفاعی پیداوار کی برآمدات کو بڑھا بھی سکے گا۔

پاک سعودی تعاون پر ماہرین کیا کہتے ہیں

واشنگٹن ڈی سی میں وِلسن سینٹر سے وابستہ جنوب ایشیائی اُمور کے ماہر مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ اِس معاہدے سے پاکستان ایک بہت بہترین پوزیشن میں آ گیا ہے۔ بھارت اب پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے لیکن پاکستان کے ساتھ اب سعودی عرب، چین اور ترکیہ جیسی تین اہم طاقتیں ہیں اور اِس وقت پاکستان ایک بہترین جگہ ہے۔

پاک سعودی دفاعی معاہدے کے بارے میں پاکستان کے معروف تجزیہ نگار مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ 1974 کے لاہور اِسلامک سمٹ کے بعد یہ پاکستان کا اہم ترین معاہدہ ہے۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا وژن 2030 کیا ہے؟

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان مسلم دنیا کے ایک انتہائی متحرک اور فعال رہنما ہیں، اور مملکتِ سعودی عرب کی کئی نئی پالیسیوں کے معمار ہیں۔

محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود زمام حکومت سنبھالنے سے اب تک سعودی عرب کے حوالے سے انتہائی اہم کردار ادا کر چکے ہیں جس میں سب سے بڑھ کر سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی عالمی اہمیت اور دنیا کے امن میں سعودی عرب کا کردار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ محمد بن سلمان نے وژن 2030 کے تحت سعودی معیشت کو تیل کی معیشت سے آگے بڑھا کر ایک ہمہ جہتی معیشت بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس میں سیاحت، صنعت اور زراعت کے فروغ کے کئی منصوبے شامل ہیں۔

اُن کے وژن 2030 کے تحت سعودی عرب میں سماجی حوالوں سے کئی اہم تبدیلیاں بھی رونما ہوئی ہیں جن میں خواتین کے حقوق میں بہتری سمیت کئی اہم اقدامات شامل ہیں۔

اُن کے والد شاہ سلمان بن عبدالعزیز 2015 میں سعودی عرب کے بادشاہ بنے تو 21 جون 2017 کو محمد بن سلمان کو ولی عہد نامزد کیا۔ لیکن ولی عہد بننے سے قبل ہی وہ 2015 سے شاہ سلمان کی کابینہ کا حصہ تھے۔ وہ اُس وقت وزیردفاع کے ساتھ ساتھ اقتصادی اور ترقیاتی کونسل کے چیئرمین بھی تھے۔

محمد بن سلمان 2015 سے ہی حکومتی اُمور چلانے میں اہم کردار ادا کر رہے تھے اور 2017 میں اُنہیں باقاعدہ ولی عہد نامزد کر دیا گیا۔

سعودی ویژن 2030، 3 ہزار ارب ڈالر کی لاگت سے سعودی عرب کی معیشت، ثقافت، سیاحت اور طرز زندگی کو بدلنے کا ایک منصوبہ ہے جس کے نتیچے میں سینکڑوں منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچیں گے۔

اس منصوبے کے بنیادی اجزا میں مالیاتی اداروں کی ترقی، خود انحصار معیشت، صحت عامہ کے شعبے میں تبدیلیاں، گھروں کی تعمیر، انسانی وسائل کی ترقی یا دوسرے معنوں میں انسانی صلاحیتوں کے فروغ کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی، صنعت اور نقل و حرکت کے ذرائع کی ترقی، زرعی خود انحصاری، حج اور عمرہ زائرین کے لیے سہولیات کی دستیابی، نجکاری، عوامی سرمایہ کاری کے منصوبے اور معیار زندگی کو بہتر کرنے کے منصوبے شامل ہیں۔

اس ویژن کے تحت سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے قریب قدیہ میں تفریحی سرگرمیوں بشمول پرفارمنگ آرٹ، کھیل اور ثقافت کا ایک بہت بڑا مرکز قائم کیا جا رہا ہے۔

سعودی عرب کے مغرب میں واقع بحیرہ احمر کے ساحلی علاقوں اور جزیروں میں بیچ ریزارٹ بنائے جا رہے ہیں۔ اس منصوبے کا ایک بہت بڑا حصہ نیوم سٹی ہے جہاں پر 100 فیصد قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع استعمال کر کے ایسا شہر بسایا جائے گا جو کرہِ ارض کے قدرتی ماحول کو آلودگی اور دیگر نقصانات سے محفوظ رکھے گا۔

اسی طرح سے سعودی شہریوں کے لیے گھروں کی طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے شہر آباد کیے جائیں گے۔ سعودی عرب میں تاریخی مقامات کی سیر کے لیے بہتر ماحول بنایا جائے گا۔ صحت کی شعبے کی بہتری اور لوگوں کو موروثی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے سعودی جینوم پروگرام شروع کیا گیا ہے۔

ویژن 2030 ایک ایسا پروگرام ہے جو سعودی عرب کے لائف اسٹائل کو بالکل بدل کے رکھ دے گا اور اس میں ہر شعبہ زندگی کے لوگ کام کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاک سعودی دفاعی معاہدہ، اسرائیل کے لیے سخت پیغام ہے، محمد عاطف

محمد بن سلمان کی معاشی اصلاحات

سعودی گیزٹ کی ایک خبر کی مطابق اس وقت کمیونیکیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سعودی معیشت کا 15.6 فیصد حصہ ہے، سال 2023 میں سعودی عرب کی جانب سے انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکسپورٹس کا حجم 76.1 فیصد بڑھ گیا تھا اور اُس کا مجموعی حجم 11.8 ارب ڈالر تھا۔ یہ چیز ظاہر کرتی ہے کہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے تحت کس طرح سے سعودی عرب اپنی معیشت کو تیل پر منحصر معیشت سے دوسروں شعبوں کی طرف منتقل کررہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

انڈونیشیا میں اسکول گرنے سے ہلاکتوں کی تعداد 36 ہوگئی، ریسکیو آپریشن جاری

زحل کے چاند اینسیلاڈس پر زندگی کے آثار کے مزید شواہد مل گئے

’ مزاحمت جاری رہے گی‘، منظر عام پر آنے والے حماس رہنما کا اسرائیل کو دو ٹوک پیغام

زہریلی شربت پینے سے 11 بچوں کی موت کے بعد ڈاکٹر گرفتار، کمپنی کے خلاف مقدمہ درج

آئی ایم ایف کا دباؤ، پی آئی اے کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل گرانے اور فلک بوس ٹاور تعمیر کرنے پر غور

ویڈیو

کدو اب نظر انداز نہیں ہوگا، اسکردو میں منفرد ’کدو فیسٹیول‘

علم بانٹنے والے معاشرے کے معماروں کو سلام، 5 اکتوبر استاد کا عالمی دن

نیتن یاہو نے اسلامی ممالک کے 20 نکات ٹرمپ سے کیسے تبدیل کروائے؟ نصرت جاوید کے انکشافات

کالم / تجزیہ

لاہور کی تاریخی آندھی، جب دن کے وقت رات ہوگئی

بچے اکیلے نہیں جاتے

جین زی (Gen Z) کی تنہائی اور بے چینی