امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی حکام نے غزہ میں ایک ابتدائی انخلا کی حد (Withdrawal Line) پر رضامندی ظاہر کر دی ہے اور اس فیصلے سے حماس کو باضابطہ طور پر آگاہ کر دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہیں، اسرائیل کا حماس کے بیان کے بعد ردعمل
صدر ٹرمپ کے مطابق اس معاہدے کے تحت جیسے ہی حماس اس فیصلے کی تصدیق کرے گی، اسرائیل اس حد تک اپنی فوجیں پیچھے ہٹا لے گا اور فوری جنگ بندی نافذ ہو جائے گی۔ اس کے بعد تمام باقی یرغمالیوں کی رہائی کا عمل شروع ہوگا۔
ٹرمپ نے ہفتہ کے روز اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ مذاکرات کے بعد اسرائیل ابتدائی انخلا لائن پر متفق ہو گیا ہے، جسے ہم نے حماس کے ساتھ شیئر کیا ہے۔ جیسے ہی اس کی توثیق ہوگی، قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ شروع ہو جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنگ بندی کے بعد فریقین کے درمیان مزید مذاکرات ہوں گے تاکہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار کی جا سکے۔
ٹرمپ کے مطابق ہم اس 3 ہزار سالہ المیے کے اختتام کے قریب پہنچنے کے لیے اگلے مرحلے کی شرائط تیار کر رہے ہیں۔
اسرائیلی حملوں میں نرمی، لیکن خطرہ برقرار
امریکی نشریاتی ادارے NPR کے مطابق اسرائیل نے غزہ سٹی پر اپنی فضائی کارروائیوں میں کمی کی ہے تاکہ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں:’غزہ میں نسل کشی بند کرو‘، یورپ کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد کا احتجاج، لندن میں گرفتاریاں
تاہم ٹرمپ نے خبردار کیا کہ اگر حماس نے تاخیر کی تو اسرائیل دوبارہ مکمل عسکری کارروائیاں شروع کر دے گا، جس سے مزید جانی نقصان ہو سکتا ہے۔
نتن یاہو کا الٹی میٹم
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے ہفتے کے روز بیان دیا کہ وہ چاہتے ہیں حماس کے قبضے میں موجود تمام یرغمالی 13 اکتوبر (یہودی تہوار سُکوت کے آخری دن) تک واپس کر دیے جائیں۔
ٹرمپ کے مطابق حماس کے قبضے میں تقریباً 48 یرغمالی ہیں، جن میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی خاندان اپنے جاں بحق عزیزوں کی لاشیں واپس حاصل کر کے تدفین اور سکون چاہتے ہیں۔
غزہ میں ہلاکتیں جاری
الجزیرہ کے مطابق جنگ بندی کی کوششوں کے باوجود اسرائیلی فضائیہ کی بمباری ہفتے کے روز بھی جاری رہی، جس میں کم از کم 70 افراد ہلاک ہوئے۔
طبی ذرائع کے مطابق ہلاک شدگان میں کتنے حماس کے ارکان اور کتنے شہری شامل ہیں، اس کی تفصیل تاحال واضح نہیں۔
اسرائیل کی جانب سے انخلا اور حملوں میں نرمی کو مبصرین ایک اہم موڑ قرار دے رہے ہیں، جو ممکنہ طور پر غزہ میں کئی ماہ سے جاری انسانی بحران میں نرمی کا باعث بن سکتا ہے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ حتمی جنگ بندی تبھی ممکن ہوگی جب دونوں فریق یرغمالیوں کی رہائی اور سیزفائر کے عملی نفاذ پر مکمل اتفاق کر لیں۔