گھریلو کاروبار کرنے والی پاکستانی خواتین کس طرح عالمی سطح پر گرانٹس، فیلوشپس اور نئے مواقع حاصل کر سکتی ہیں؟

اتوار 12 اکتوبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں بڑی تعداد میں خواتین گھروں سے کاروبار چلا رہی ہیں، چاہے وہ کپڑوں کی سلائی ہو، کھانے پکانے کا کام، دستکاری یا آن لائن مصنوعات فروخت کرنا۔ ان سب خواتین کے لیے اب ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے مواقع موجود ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے کاروبار کو بڑھا سکتی ہیں، تربیت حاصل کر سکتی ہیں اور مالی معاونت (گرانٹ یا قرض) بھی حاصل کر سکتی ہیں۔

واضح رہے کہ یہ پروگرامز نہ صرف سرمایہ فراہم کرتے ہیں بلکہ کاروباری منصوبہ بندی، مارکیٹنگ اور جدید کاروباری طریقوں کی تربیت بھی دیتے ہیں تاکہ یہ خواتین اپنا کاروبار پائیدار بنیادوں پر آگے بڑھا سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغان دستکاری کے شاہکار خواتین کو کاروبار کے نئے مواقع فراہم کرسکتے ہیں؟

وہ کون سے ایسے چند اہم پروگرامز ہیں جن میں پاکستانی خواتین براہِ راست درخواست دے سکتی ہیں؟ آئیے جانتے ہیں۔

کرا انداز پاکستان کا خواتین مالی شمولیت پروگرام

کرا انداز پاکستان (Karandaaz Pakistan) کا ’خواتین کی مالی شمولیت‘ پروگرام بنیادی طور پر ان خواتین کے لیے ہے جو دیہی یا شہری علاقوں میں چھوٹے پیمانے پر کاروبار کررہی ہیں اور جنہیں مالیاتی اداروں تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔

اس پروگرام کا مقصد خواتین کو ڈیجیٹل مالی سہولتیں فراہم کرنا ہے، جیسے موبائل بینکنگ، قرض، بچت، بیمہ اور کاروباری لین دین کے محفوظ ذرائع وغیرہ۔

واضح رہے کہ یہ پروگرام زیادہ تر ان خواتین کے لیے ہوتا ہے جو پہلے سے کسی چھوٹے کاروبار سے وابستہ ہیں مگر انویسٹمنٹ کم ہونے کی وجہ سے ترقی نہیں کر پا رہی ہوتیں۔

اس پروگرام کے تحت درخواست دینے کا عمل عموماً سال میں ایک بار کھولا جاتا ہے، گزشتہ برس درخواستیں جنوری میں کھولی گئیں اور فروری میں بند ہوئیں۔

یاد رہے کہ اس میں حصہ لینے کے لیے شرط یہ ہے کہ کاروبار پاکستان میں رجسٹرڈ ہو، اس کا مقصد خواتین کے مالی مسائل کو حل کرنا ہو، اور اس کے علاوہ اس میں جدت (انوویشن) کا عنصر موجود ہو۔ اس پروگرام میں زیادہ ترجیح اُن کاروباروں کو دی جاتی ہے جو زرعی شعبے یا محنت کش طبقے سے جڑی خواتین کے لیے مالیاتی سہولتیں فراہم کرتے ہوں۔

منتخب ہونے والی کاروباری خواتین کو مرحلہ وار گرانٹ دی جاتی ہے، جو کارکردگی اور مقررہ اہداف پورے کرنے کی بنیاد پر قسطوں میں ادا کی جاتی ہے۔ بعض صورتوں میں مالی امداد ڈیڑھ کروڑ روپے تک بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ منتخب کاروباری خواتین کو کاروباری منصوبہ بنانے، مالی نظم و ضبط اور مارکیٹنگ کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔

کرا انداز ویمن وینچرز پروگرام

کرا انداز کا دوسرا نمایاں منصوبہ ’ویمن وینچرز‘ کے نام سے ہے، جس کا مقصد خواتین کے زیرِ ملکیت کاروباروں کو مزید وسعت دینا ہے۔ یہ پروگرام ان خواتین کے لیے ہے جو پہلے سے اپنا کاروبار کامیابی سے چلا رہی ہیں، جن کی فروخت اور آمدنی مناسب سطح پر ہے، اور جو اسے مزید بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

اس پروگرام میں شرکت کے لیے لازم ہے کہ کاروبار کی ملکیت زیادہ تر خواتین کے پاس ہو، یعنی کم از کم 51 فیصد حصہ خواتین کا ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ یہ شرط بھی رکھی جاتی ہے کہ کاروبار کم از کم 3 سال سے جاری ہو اور اس کی سالانہ آمدنی خاطر خواہ ہو۔

’ویمن وینچرز‘ پروگرام میں مالی معاونت کاروبار کے حجم اور ترقی کے منصوبے کے مطابق فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کاروباری ترقی کے لیے خصوصی تربیت، مشاورت، مارکیٹ سے روابط اور برانڈ سازی میں مدد بھی دی جاتی ہے تاکہ خواتین اپنے کاروبار کو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر فروغ دے سکیں۔

اس پروگرام میں زیادہ ترجیح ان کاروباروں کو دی جاتی ہے جو اپنے شہر یا صوبے سے نکل کر ملک کے دیگر علاقوں تک پھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ساتھ ہی ایسے کاروبار جن میں نئی ٹیکنالوجی، انوویشن یا ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا استعمال کیا گیا ہو، انہیں خاص اہمیت دی جاتی ہے۔

سندھ انٹرپرائز ڈیویلپمنٹ فنڈ کا خواتین کاروباری پروگرام

سندھ حکومت کے تحت چلنے والا ’سندھ انٹرپرائز ڈیویلپمنٹ فنڈ‘ بھی خواتین کے لیے ایک مؤثر منصوبہ ہے۔ اس پروگرام کا مقصد صوبے میں خواتین کاروباری افراد کو مالی سہولتیں دینا ہے تاکہ وہ اپنے کاروبار کو وسعت دے سکیں۔

یہ پروگرام خاص طور پر ان خواتین کے لیے ہے جو کھانے پینے کی مصنوعات، لائیو اسٹاک، دستکاری یا چھوٹے پیمانے پر خدمات فراہم کرنے والے شعبوں میں کام کررہی ہیں۔ درخواست دینے کے لیے ضروری ہے کہ خاتون سندھ کی رہائشی ہو اور کاروبار اس کی ملکیت میں ہو۔

پروگرام کے تحت خواتین کو آسان شرائط پر قرضے دیے جاتے ہیں، جن پر منافع کی شرح کم ہوتی ہے۔ بعض اوقات صوبائی حکومت اس قرض کے سود کی ادائیگی خود کرتی ہے تاکہ خواتین پر مالی دباؤ کم ہو۔ ساتھ ہی کاروباری منصوبہ تیار کرنے، حساب کتاب رکھنے اور فروخت میں اضافہ کرنے کی تربیت بھی فراہم کی جاتی ہے۔

بین الاقوامی مواقع

بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستانی خواتین کے لیے مختلف گرانٹس اور تربیتی پروگرام دستیاب ہیں، ان میں امریکی سفارتخانے اور اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے شامل ہیں جو پاکستان میں خواتین کاروباری منصوبوں کی تربیت اور مالی معاونت فراہم کرتے ہیں۔

حال ہی میں بلوچستان اور سندھ میں خواتین کے لیے کاروباری تربیتی پروگراموں کا انعقاد کیا گیا جن میں منتخب خواتین کو بیرونِ ملک ماہرین کی زیرِ نگرانی تربیت دی گئی، اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی مصنوعات کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تیار کر سکیں۔

کارٹیئر ویمنز انیشی ایٹیو ایوارڈ

کارٹیئر ویمنز انیشی ایٹیو ایک بین الاقوامی پروگرام ہے جو خواتین کی زیرِ ملکیت یا ان کی قیادت میں چلنے والے کاروباروں کو عالمی سطح پر شناخت اور مالی معاونت فراہم کرتا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد ایسے کاروباروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جو نہ صرف منافع حاصل کریں بلکہ سماجی یا ماحولیاتی بہتری میں بھی کردار ادا کریں۔ یہ پروگرام ان منصوبوں کو ترجیح دیتا ہے جو پائیداری (Sustainability) اور معاشرتی اثر (Social Impact) کو فروغ دیتے ہوں اور جن میں ترقی اور وسعت کی گنجائش ہو۔

اس پروگرام کی درخواستیں ہر سال اپریل سے جون کے درمیان کھلتی ہیں۔ یعنی ہر سال مئی کے آغاز سے وسط تک درخواست دینے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ درخواست دینے والی خاتون کی عمر کم از کم 18 سال ہونی چاہیے، اور وہ اپنے کاروبار کی سربراہ ہوں جیسے چیف ایگزیکٹو، جنرل مینیجر یا کسی قیادت کے عہدے پر فائز ہوں۔ اس کے علاوہ کاروبار کا قانونی طور پر رجسٹرڈ ہونا ضروری ہے، اور وہ کاروبار کم از کم ایک سال سے آمدنی بھی بنا رہا ہو۔

منافع بخش کاروبار اہل سمجھے جاتے ہیں، جبکہ غیر منافع بخش تنظیمیں شامل نہیں کی جاتیں۔ کاروبار نے اگر دو ملین امریکی ڈالر سے کم بیرونی سرمایہ حاصل کیا ہو تو وہ اہل سمجھا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ جبکہ انگریزی زبان پر بی ٹو (B2) سطح کی مہارت بھی درکار ہوتی ہے، تاکہ بین الاقوامی رابطے مؤثر طریقے سے قائم کیے جا سکیں۔

منتخب کاروباروں کو ایک سالہ فیلوشپ پروگرام کے تحت تربیت، رہنمائی، کوچنگ اور عالمی سطح پر نیٹ ورکنگ کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ پروگرام خاص طور پر اُن خواتین کے لیے فائدہ مند ہے جو ماحول دوست، تعلیم، صحت، یا سماجی بہتری کے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ ان کا کاروبار عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے۔

یو گو گرل (پاکستان، کوریا ایکسچینج پروگرام)

یو گو گرل ایک مشترکہ پروگرام ہے جسے اقوامِ متحدہ کی خواتین ونگ (UN Women) اور کوریا کی بین الاقوامی تعاون ایجنسی (KOICA) مل کر چلاتے ہیں۔ اس پروگرام کا مقصد پاکستان کی نوجوان خواتین کو ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل دنیا میں تربیت، تبادلہ تجربہ اور عالمی سطح پر مواقع فراہم کرنا ہے۔

اس کی توجہ خاص طور پر ان خواتین پر ہے جو ٹیکنالوجی کے شعبے میں مہارت حاصل کرنا چاہتی ہیں یا اپنے کاروبار کو ڈیجیٹل طریقوں سے آگے بڑھانا چاہتی ہیں۔

اس پروگرام کی ایپلیکیشنز ہر سال اگست کے مہینے میں کھلتی ہیں، درخواست دینے والی خاتون پاکستانی شہری ہو اور اس کی عمر 18 سے 35 سال کے درمیان ہو۔

امیدوار کے پاس کم از کم میٹرک یا اس کے مساوی ڈگری ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ پاسپورٹ درست ہونا ضروری ہے، تاکہ کوریا کا ویزا حاصل کیا جا سکے۔ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں گفتگو کی صلاحیت ہونا بھی اہم شرط ہے۔

یہ پروگرام ان خواتین کے لیے خاص طور پر موزوں ہے جو ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل مارکیٹنگ یا انٹرنیٹ پر مبنی کاروباروں میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ خواہ وہ تعلیمی سطح پر ہوں یا ابتدائی پیشہ ورانہ مرحلے میں، یہ پروگرام انہیں عالمی سطح پر نیٹ ورک بنانے اور اپنے خیالات کو وسعت دینے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

کاؤنٹ می اِن (Count Me In)

’کاؤنٹ می اِن‘ ایک عالمی تنظیم ہے جو خواتین کو مالیاتی اور کاروباری میدان میں بااختیار بنانے کے لیے تربیت، رہنمائی، نیٹ ورکنگ، اور سرمایہ تک رسائی فراہم کرتی ہے۔

اس پروگرام کا بنیادی مقصد خواتین کو وہ وسائل دینا ہے جن کے ذریعے وہ اپنی مالی خود مختاری حاصل کر سکیں اور اپنے کاروبار کو کامیاب انداز میں چلا سکیں۔

’کاؤنٹ می اِن‘ کے مختلف پروگرام سال کے مختلف اوقات میں منعقد ہوتے ہیں، اس لیے اس کی کوئی مقررہ سالانہ تاریخ نہیں ہوتی۔ عموماً تربیتی کورسز، رہنمائی (Mentorship) یا سرمایہ کاری سے متعلق پروگراموں کے لیے درخواستیں ویب سائٹ یا نیوز لیٹرز کے ذریعے وقتاً فوقتاً جاری کی جاتی ہیں۔

درخواست دینے والی خاتون کے پاس اپنا کاروباری منصوبہ ہونا چاہیے، خواہ وہ ابتدائی خیال کی صورت میں ہو یا پہلے سے جاری کاروبار۔ عام طور پر درخواست کے ساتھ تعلیمی پس منظر، تجربے کا ثبوت، کاروباری منصوبہ، مالی تخمینے اور رابطے کی معلومات طلب کی جاتی ہیں۔

یہ پروگرام ان خواتین کے لیے خاص طور پر موزوں ہے جو سرمایہ یا نیٹ ورک کی کمی کے باعث اپنا کاروبار بڑھانے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔ اگر ان کے منصوبے میں ترقی کے امکانات موجود ہوں تو ’کاؤنٹ می اِن‘ اُنہیں رہنمائی، سیکھنے کے مواقع اور ممکنہ سرمایہ کاروں تک رسائی فراہم کرتا ہے۔

کاروباری خواتین کو چاہیے کہ وہ جامع منصوبہ تیار کریں، صائمہ رضوان

صائمہ رضوان ایک بزنس سٹریجسٹ ہیں، جنہوں نے خواتین کو کچھ ٹپس شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ جو خواتین ایسے پروگراموں میں اپلائی کرنا چاہتی ہیں، اُنہیں چاہیے کہ وہ ایک جامع کاروباری منصوبہ تیار کریں جس میں یہ واضح ہو کہ کاروبار سے آمدنی کس طرح حاصل ہوگی اور اسے آگے بڑھانے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین کا عالمی دن: وزیراعظم نے گھریلو صنعت سے منسلک کاروباری خواتین کو خوشخبری سنادی

’کاروبار کو قانونی طور پر رجسٹرڈ کرانا، بینک اکاؤنٹ کھولنا اور ضروری دستاویزات جیسے قومی شناختی کارڈ اور رہائش کا ثبوت تیار رکھنا بھی اہم ہے۔ جو خواتین اپنی مصنوعات کی تصاویر اور سیل کے ثبوت پیش کرتی ہیں، اُن کے کامیاب ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں خواتین کے لیے کاروباری مواقع اب پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ وسیع ہو چکے ہیں۔ حکومت، نجی ادارے اور بین الاقوامی تنظیمیں سب اس بات کو یقینی بنانے میں مصروف ہیں کہ پاکستانی خواتین نہ صرف اپنے گھروں سے کاروبار شروع کر سکیں بلکہ عالمی سطح پر اپنی پہچان بھی بنا سکیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

کرینہ کپور کی نئی ورزش سوشل میڈیا پر وائرل، اس کے فائدے کیا ہیں؟

تحریک لبیک کے احتجاج سے عوام کو شدید پریشانی کا سامنا

نوبیل امن انعام پانے والی ماریا کورینا اسرائیل کی طرف دار نکلیں، بین الاقوامی تنقید کا سامنا

لائیوٹیسٹ سیریز:  پاکستان کا ٹاس جیت کر جنوبی افریقہ کیخلاف بیٹنگ کا فیصلہ

ٹرمپ کی جانب سے 100 فیصد ٹیرف کی دھمکی، چین نے امریکا پر دوہرا معیار اپنانے کا الزام عائد کر دیا

ویڈیو

پاکستان اور سعودی عرب کی اٹوٹ دوستی کی علامت فیصل مسجد

کراچی میں چھینے گئے موبائل کہاں جاتے ہیں؟ واپس کیسے پائیں؟

کراچی سے چھینے گئے موبائل کہاں جاتے ہیں، انہیں واپس لینے کے لیے کیا کرنا ضروری ہے؟

کالم / تجزیہ

ٹیسٹ کرکٹ میں جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستان کی پہلی کامیابی کی کہانی

جین زی: گزشتہ سے پیوستہ

کیا غزہ میں جنگ بندی دیرپا ثابت ہوگی؟ خدشات،اثرات، مضمرات