اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو پیش کی گئی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان اب بھی مختلف دہشت گرد گروہوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے، جو عالمی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
دستاویز کے مطابق تحریکِ طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کے تقریباً 6 ہزار جنگجو اب بھی افغان سرزمین پر موجود ہیں، جنہیں مبینہ طور پر افغان حکام کی حمایت حاصل ہے۔
مذکورہ رپورٹ اقوامِ متحدہ کی تحلیلی معاونت و پابندیوں کی مانیٹرنگ ٹیم نے سلامتی کونسل کی کمیٹی برائے داعش، القاعدہ و متعلقہ گروہ کو پیش کی ہے، جس میں دنیا کے مختلف خطوں میں ان تنظیموں کی تازہ سرگرمیوں، مالیاتی ذرائع اور ممکنہ خطرات کا تفصیلی جائزہ شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی جانب سے افغانستان پر فضائی حملہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق ہے، سفارتی ماہرین
رپورٹ کے مطابق داعش خراسان کو 2,000 کے قریب جنگجوؤں کے ساتھ علاقائی وعالمی سطح پر سب سے خطرناک گروہ قرار دیا گیا ہے۔
UN Report Confirms Afghan Taliban’s Ties with Global Terror 🚨
The 36th Report of the UN Analytical Support & Sanctions Monitoring Team (24 July 2025) exposes how Afghanistan under the de facto Taliban regime has become a safe haven for multiple terrorist groups including… pic.twitter.com/fQEgvL3KeG
— War Analyst (@War_Analysts) October 14, 2025
رپورٹ میں بتایا گیا کہ داعش خراسان شیعہ برادری، طالبان حکام اور غیر ملکی اہداف کو نشانہ بنانے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں القاعدہ اور داعش یعنی اسلامک اسٹیٹ اب بھی عالمی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بنی ہوئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، اگرچہ دونوں گروہوں کی مرکزی قیادت کمزور پڑ چکی ہے، تاہم ان کے علاقائی نیٹ ورک، خصوصاً افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں، تیزی سے فعال اور خودمختار ہو رہے ہیں۔
افغانستان میں دہشت گردوں کے لیے سازگار ماحول
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان اب بھی مختلف دہشت گرد گروہوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔
داعش خراسان کو 2 ہزار کے قریب جنگجوؤں کے ساتھ علاقائی وعالمی سطح پر سب سے خطرناک گروہ قرار دیا گیا ہے۔
دستاویز کے مطابق تحریکِ طالبان پاکستان کے تقریباً 6,000 جنگجو اب بھی افغان سرزمین پر موجود ہیں، جنہیں مبینہ طور پر افغان حکام کی حمایت حاصل ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ داعش خراسان شیعہ برادری، طالبان حکام اور غیر ملکی اہداف کو نشانہ بنانے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔
القاعدہ کمزور مگر پھیلاؤ جاری
رپورٹ کے مطابق، القاعدہ کی مرکزی قیادت کمزور ضرور ہے، لیکن اس کے ذیلی گروہ اپنی مقامی سطح پر طاقت اور اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں۔
تنظیم کا سربراہ سیف العدل بدستور پس منظر میں رہ کر رہنمائی فراہم کر رہا ہے، تاہم کئی گروہوں میں اس کی قیادت پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔
القاعدہ کے زیرِ اثر گروہ جماعت نصرت الاسلام والمسلمین اور الشباب نے مغربی اور مشرقی افریقہ میں اپنی کارروائیوں میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں: اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی افغانستان کے خلاف قرارداد کیا روس کے ردعمل میں منظور کی گئی؟
یہ گروہ نہ صرف ریاستی سیکیورٹی فورسز بلکہ شہری آبادی کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں، اور متعدد علاقوں میں اپنی انتظامی و عدالتی نظام نافذ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ القاعدہ نے غزہ اور اسرائیل کے تنازعے کو اپنے بیانیے کے طور پر استعمال کیا، اور دنیا بھر میں اکیلے حملہ آوروں کو حملوں پر اکسانے کی مہم چلائی۔
اس دوران القاعدہ جزیرہ نما عرب نے اس مسئلے پر جذباتی تقاریر اور کراؤڈ فنڈنگ مہمات کے ذریعے مالی وسائل بڑھانے کی کوشش کی۔
داعش کی سرگرمیاں افریقہ منتقل
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داعش نے مشرقِ وسطیٰ میں شدید دباؤ کے بعد اپنی سرگرمیوں کا مرکز افریقہ کو بنا لیا ہے۔
تنظیم کے نائب سربراہ ابو خدیجہ کی ہلاکت کے باوجود، داعش کے جنگجو نائیجیریا، مالی، نائجر اور چاڈ سمیت متعدد ممالک میں سرگرم ہیں۔
اسلامک اسٹیٹ ویسٹ افریقہ پروونس اور اسلامک اسٹیٹ اِن دی گریٹر سہارا جیسے گروہ مقامی بھرتی، تاوان، غیر قانونی ٹیکس اور اسمگلنگ کے ذریعے اپنے مالی وسائل بڑھا رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق داعش کے جنگجوؤں نے حالیہ مہینوں میں ڈرون حملوں اور جدید ہتھیاروں کا استعمال بڑھا دیا ہے، جب کہ تربیت یافتہ ماہرین مشرقِ وسطیٰ سے افریقہ منتقل کیے گئے ہیں۔
نئی فنڈنگ اور ٹیکنالوجی کے طریقے
اقوامِ متحدہ کی ٹیم کے مطابق، القاعدہ اور داعش دونوں تنظیمیں اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے کرپٹو کرنسی، کلاؤڈ حوالہ، موبائل منی ایپس اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے جعلی دستاویزات جیسے جدید حربے استعمال کر رہی ہیں۔
داعش کے بعض گروہوں نے مونیرواور ٹیلی گرام والیٹ جیسی ایپس کے ذریعے چندہ جمع کرنے کا نیا طریقہ اپنایا ہے۔
غیر ملکی جنگجوؤں کی واپسی تشویشناک
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ 5 ہزار سے زائد غیر ملکی جنگجو شام اور عراق سے واپس اپنے ممالک یا دیگر خطوں میں منتقل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، جن میں وسطی ایشیائی ممالک اور یورپ سب سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق، اگرچہ القاعدہ اور داعش کے بڑے نیٹ ورک کو کئی ممالک میں سخت دھچکے لگے ہیں، مگر ان کی علاقائی شاخیں پہلے سے زیادہ منظم، خودمختار اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہو چکی ہیں۔
رپورٹ کے اختتام پر رکن ممالک کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی مالی معاونت، کرپٹو لین دین اور جنگجوؤں کی نقل و حرکت پر سخت نگرانی رکھیں، کیونکہ یہ خطرہ ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ نئے انداز میں ابھر رہا ہے۔














