وہ 17 اکتوبر 1998 کی خاموش صبح تھی۔ کراچی کے علاقے آرام باغ کی گلیوں میں سکوت چھایا ہوا تھا۔ ہوا میں سمندری نمی اور اکتوبر کی خنکی گھلی ہوئی تھی۔
ملگجے اندھیرے میں ایک سفید گاڑی آہستگی سے ایک مطب کے سامنے آ کر رُکی۔ دروازہ کھلا تو ایک بزرگ شخصیت نظر آئی، ہاتھ میں تسبیح، سر پر جناح کیپ، چہرے پر وہی مانوس مسکراہٹ۔ یہ کوئی عام شخص نہیں تھا، بلکہ پاکستان کے معروف طبیب، محقق، سماجی رہنما اور سابق گورنر سندھ حکیم محمد سعید تھے۔
وہ ہمیشہ کی طرح وقت سے پہلے پہنچے تھے۔ آج بھی وہ اپنے مطب میں آنے والے مریضوں سے ملنے والے تھے، جن کے لیے وہ صرف حکیم نہیں، امید کا استعارہ تھے۔
مگر اُس دن امید کا چراغ بجھنے والا تھا۔ ابھی وہ مطب کے باہر چند افراد سے مصافحہ کر رہے تھے کہ اچانک فضا گولیوں کی آواز سے لرز اٹھی۔ سڑک کے اُس پار سے چند گاڑیاں تیزی سے آئیں، اور پھر چند لمحوں میں پورا علاقہ فائرنگ کی گونج میں ڈوب گیا۔ لوگ سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ گولیوں کی بوچھاڑ نے حکیم سعید اور ان کے ساتھیوں کو نشانہ بنا ڈالا۔
گولیاں ان کے سر اور گردن میں لگیں، اور وہ شخص جو اپنی زندگی دوسروں کے لیے وقف کر چکا تھا، خود کو موت کے حوالے کر گیا۔ زمین پر تسبیح کے دانے بکھر گئے، خون میں لتھڑی جناح کیپ خاموش گواہ بن گئی، اور کراچی کی وہ صبح تاریخ کے سب سے المناک باب میں درج ہو گئی۔
پاکستان کا یہ بطلِ جلیل، جس نے علم، خدمت اور انسان دوستی کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا، اسی شہر میں شہید ہوا جسے وہ تعلیم اور فلاح کی روشنی سے جگمگانا چاہتا تھا۔ حکیم محمد سعید کا جانا ایک فرد کا نہیں، ایک عہد کا خاتمہ تھا۔













