دفاعی تجزیہ کار اور بین الاقوامی امور کے ماہر میجر جنرل (ر) زاہد محمود کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پورے خطے کے لیے خطرہ ہے اور اس کی کارروائیاں نہ صرف پاکستان بلکہ خود افغانستان کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے دہشتگردی کا سلسلہ فی الفور بند ہوگا، قطر اور ترکیہ کے مشکور ہیں، خواجہ آصف
وی نیوز کو دیے گئے اپنے خصوصی انٹرویو میں میجر جنرل (ر) زاہد محمود نے کہا کہ افغان حکومت اگر ٹی ٹی پی کے خلاف مؤثر کارروائی کرے تو نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان کی عالمی ساکھ بھی بہتر ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ افغان سرزمین پر موجود دہشتگرد گروہوں کو خاموشی سے برداشت کرنا افغانستان کے مفاد میں نہیں ہے۔
’افغانستان کو اپنی پالیسی بدلنی ہوگی‘
میجر جنرل (ر) زاہد محمود نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری علاقائی امن اور انسداد دہشتگردی کے لیے ناگزیر ہے تاہم اس کے لیے افغانستان کو اپنی پالیسی میں واضح تبدیلی لانی ہوگی۔
مزید پڑھیے: سعودی عرب کی جانب سے پاک افغان جنگ بندی کا خیرمقدم، قیام امن کے لیے اہم پیش رفت قرار دیدیا
انہوں نے کہا کہ ’اگر افغان حکومت اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے نہیں روکتی تو خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں‘۔
میجر جنرل (ر) زاہد محمود کا کہنا تھا کہ پاکستان کی افغان پالیسی ہمیشہ 2 نکات (سیکیورٹی اور معاشی روابط) پر مرکوز رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے ہر حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی مگر طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد صورتحال پیچیدہ ہوگئی ہے۔
’ٹی ٹی پی فیکٹر نے پاکستان اور افغانستان کے بیچ بداعتمادی بڑھائی‘
انہوں نے کہا کہ ’افغان طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے کے باوجود پاکستان نے انسانی بنیادوں پر مدد جاری رکھی لیکن ٹی ٹی پی کے معاملے نے دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی بڑھا دی ہے‘۔
مزید پڑھیں: افغانستان کے لیے پاکستان لائف لائن، جنگ کے سبب افغانستان کو کتنا بڑا معاشی نقصان ہورہا ہے؟
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے داخلی سکیورٹی اداروں نے گزشتہ چند برسوں میں دہشتگردی کے خلاف کامیابیاں سمیٹی ہیں لیکن حالیہ حملے ظاہر کرتے ہیں کہ افغان سرزمین سے دراندازی ایک بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔
میجر جنرل (ر) زاہد محمود نے کہا کہ ’پاکستان نے ہمیشہ سفارتی ذرائع سے مسئلہ حل کرنے کو ترجیح دی ہے مگر اب وقت آ گیا ہے کہ کابل کے ساتھ تعلقات کی نئی بنیاد رکھی جائے جو صرف اعتماد اور عملی اقدامات پر قائم ہو‘۔
’سی پیک میں افغانستان کی شمولیت خطے کے لیے نیا باب کھول سکتی ہے‘
ان کا کہنا تھا کہ علاقائی طاقتوں بالخصوص چین، ایران اور وسط ایشیائی ممالک کو بھی اس عمل میں کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ افغانستان کی غیر مستحکم صورتحال پورے خطے کے امن کو متاثر کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: وزیر دفاع نے افغانستان سے سیزفائر برقرار رکھنے کی شرط بتادی
سی پیک حکمت عملی میں افغانستان کو شامل کرنا خطے کے لیے ایک نیا باب کھول سکتا ہے مگر اس کے لیے سیاسی استحکام بنیادی شرط ہے۔
’افغانستان سے عالمی دنیا کی دوری خلا پیدا کردے گی‘
عالمی منظرنامے پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مغربی دنیا افغانستان سے دور رہنے کی پالیسی اپنا رہی ہے جس سے خلا پیدا ہوا ہے۔
میجر جنرل (ر) زاہد محمود نے کہا کہ امریکا اور یورپی طاقتیں اب افغانستان کو ترجیحی ایجنڈے سے باہر کرچکی ہیں اس لیے خطے کے ممالک کو خود اپنے مفادات کے مطابق نئی پالیسی ترتیب دینی ہوگی۔
پاکستان کی داخلہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں کو اپنی پالیسیوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ خارجہ، داخلہ اور دفاعی پالیسیوں میں تسلسل اور واضح پیغام ضروری ہے تاکہ ہم اپنی سرحدوں پر مؤثر کنٹرول اور سفارتی سطح پر مضبوط مؤقف رکھ سکیں۔
’پاکستان کو افغانستان پر اثر انداز ہونے کا خیال دماغ سے نکالنا ہوگا‘
میجر جنرل (ر) زاہد محمود کہا کہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات میں ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے۔
مزید پڑھیں: پاکستان پر افغانستان میں رجیم چینج کی کوششوں کا الزام بے بنیاد ہے: وزیر دفاع خواجہ آصف
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس سوچ سے نکلنا ہوگا کہ افغانستان پر اثرانداز ہوا جا سکتا ہے اور اب تعلقات کو برابری، احترام اور باہمی مفادات کی بنیاد پر استوار کرنا ہوگا۔













