سبزباغوں کا شہزادہ

جمعہ 19 مئی 2023
author image

محمد نثار خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پرانے وقتوں کی بات ہے، ایک ملک تھا جو بہت غریب تھا۔ اس ملک کے شہری بھی بہت غریب تھے اور بڑی مشکل سے دو وقت کا کھانا کھاتے تھے۔ اس ملک کے شہریوں کو کسی مسیحا کا انتظار تھا کہ کوئی مسیحا آئے اور اس ملک کے حالات ٹھیک کرے۔ ایسے میں اس ملک میں ایک ایسا شہزادہ پیدا ہوا جس کو بچپن سے ہی حکمران بننے کا شوق تھا۔ یہ شہزادہ جب جوانی کی دہلیز پر پہنچا تو اس نے غربت کے ستائے اس ملک کے عوام کو سبز باغ دیکھانے شروع کر دیے۔ شہزادہ عوام کے سامنے جوشیلی تقریریں کرتا اور عوام کو ایسے ایسے سبز باغ دیکھاتا کہ عوام اس کو اپنا مسیحا سمجھ بیٹھے۔

ملک سے غربت کا خاتمہ اس شہزادے کی تقریروں کا اولین موضوع ہوتا۔ اس شہزادے کی تقریروں کی چیدہ چیدہ باتوں میں کرپشن ختم کروں گا، مہنگائی کم کروں گا، قرضہ ختم کروں گا، آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لوں گا، آئی ایم ایف کے پاس گیا تو خود کشی کر لوں گا، ملکی ادارے ٹھیک کروں گا، ٹینڈر مافیا کے خلاف جہاد کروں گا، ایک کروڑ نوکریاں دوں گا، پچاس لاکھ گھر غریبوں کو دوں گا، ملکی معیشت ٹھیک کروں گا، جنگلہ بس نہیں چلاؤں گا،سستی بجلی دوں گا، 350ڈیم بناؤں گا، سیاسی انتقام نہیں لوں گا، کسی سے ڈکٹیشن نہیں لوں گا، سبز پاسپورٹ کی عزت بڑھاؤں گا وغیرہ وغیرہ۔

یہ شہزادہ عوام کو غربت سے نکالنے اور ملکی حالات ٹھیک کرنے کے لیے سڑکوں پر مارا مارا پھرتا۔ اقتدار میں آنا اس کا خواب تھا۔ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔ جس کو اپنا چپڑاسی نہ رکھنے کی بات کرتا تھا اس سے بھی ہاتھ ملا لیا، جس کو ڈاکو کہتا تھا اس سے بھی دوستی کر لی۔ جس کو قاتل موومنٹ کہتا تھا اس سے بھی لین دین کر لیا۔ غرض اقتدار کے لیے ہر قسم کے اصول کو پامال کیا۔

اب اقتدار میں آنے کے لیے اس ملک کے بڑوں کی منت سماجت کرنے لگا، ننگے پاؤں درباروں پر جا کر ماتھا ٹیکنے لگا، ایڑیاں رگڑتا کہ ایک بار مجھے بھی اقتدار میں آنے دو میں اس ملک کی تقدیر بدل دوں گا۔ اقتدار کے لیے شہزادے کی تگ و دو کو دیکھتے ہوئے عوام نے بھی اس شہزادے کو اقتدار میں لانے کے لیے کمر کس لی۔

شہزادے کے سبز باغ غریب ملک کے عوام کے دلوں میں اتنے گھر کر گئے کہ عوام اٹھتے بیٹھتے، جاگتے سوتے، چلتے پھرتے اسی شہزادے کی باتوں میں محو ہوتے اور دل ہی دل میں خوشیاں مناتے کہ جب یہ شہزادہ اقتدار میں آئے گا تو اس ملک کی قسمت بدل جائے گی اور ہمارے بھی وارے نیارے ہو جائیں گے۔

ہی وجہ تھی کہ عوام تو عوام اس ملک کے بڑے مالک بھی اس شہزادے کے سبز باغوں کے دیوانے ہو گئے اور اس شہزادے کو اقتدار میں لانے کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔ اس شہزادے کو اقتدار میں لانے کے لیے ان بڑے مالکوں نے سر توڑ بازی لگائی جو کوئی بھی اس اس شہزادے کی مخالفت کرتا اس کو یہ بڑے مالک غائب کروا دیتے، زور زبردستی چُپ کروا دیتے یا جو نہ مانتا اس کو جیلوں میں ڈال دیتے۔ اب وہ وقت آ گیا کہ اس شہزادے کو تمام رکاوٹیں دور کر کے اقتدار پر بیٹھا دیا گیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی اس شہزادے کو یقین نہیں تھا کہ وہ اقتدار میں ہے۔

اکثر و بیشتر اس شہزادے کی زوجہ محترمہ یقین دلاتی کہ شہزادے اب تم بادشاہ سلامت ہو اور اس ملک کے حکمران ہو۔ لیکن پھر بھی یہ شہزادہ ایسی بہکی بہکی باتیں کرتا کہ وہ اب بھی اپوزیشن کا ہی ایک نمائندہ لگتا۔ پھر بھی عوام خوش تھی کہ ان کا ہر دلعزیز شہزادہ اب بادشاہ بن گیا ہے اور جلد ہی ان کے اچھے دن آنے والے ہیں۔

دن گزرتے گئے، شہزادے کی زندگی کے دن اچھے ہوتے گئے۔ اس کے وزیروں، مشیروں کی بھی چاندی ہو گئی۔ شہزادہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا گیا۔ اس شہزادے کو اقتدار میں آئے ہوئے 3سال ہو گئے لیکن عوام کی حالت پہلے سے بھی خراب ہو گئی۔ مہنگائی بڑھ گئی، کرپشن میں اضافہ ہو گیا، ملکی قرضہ بڑھ گیا۔ اس شہزادے نے آئی ایم ایف سے ریکارڈ قرضہ لیا۔

دوست ممالک سے تعلقات خراب کیے۔ ملکی اداروں کو اپنے گھر کی لونڈی بنا دیا۔ بے روزگاری بڑھ گئی۔ ڈیم تو دور کی بات ایک چھوٹا ہائیڈرل پاور پراجیکٹ بھی نہیں لگایا۔ جب اس شہزادے کو اقتدار ملا تو ملک لوڈ شیڈنگ فری تھا، اس نے پھر لوڈ شیڈنگ والا ملک بنا دیا۔ اقتدار میں آ کر شہزادے نے 67ارب روپے کی خطیر رقم سے جنگلہ بس بھی بنائی۔ جو آئے روز بند پڑی رہتی ہے۔

کے پی میں جب اس شہزادے کے ہمنوا اقتدار میں آئے تو کے پی کا قرضہ 97ارب ڈالر تھا اور 8سالوں میں کے پی کا قرضہ بلند ترین سطح 800ارب ڈالر سے زائد ہو گیا اور مرکز میں جب یہ شہزادہ اقتدار میں آیا تو پاکستان کا قرضہ 29879بلین ڈالر تھا جو اس شہزادے نے صرف 5۔3 سال میں 53544ارب تک پہنچا دیا۔ یوں اس شہزادے کے اقتدار میں ملکی قرضے میں 79 فیصد اضافہ ہوا۔ اس قرضے سے ایک سنگل میگا پروجیکٹ بھی اس شہزادے نے نہیں لگایا۔

کرپشن کی بات کی جائے تو جب یہ شہزادہ اقتدار کی مسند پر بیٹھا تو یہ غریب ملک کرپشن میں 117 نمبر پر تھا۔ اس شہزادے نے دن رات محنت کر کے اس غریب ملک کو کرپشن میں 140 نمبر پر پہنچا دیا۔ بے روزگاری بڑھانے میں بھی اس شہزادے نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ بے روزگاری 3.5سے 9.5تک پہنچا دی۔ جب 2018 میں اس شہزادے نے اقتدار لیا تو اس ملک کی معیشت کی شرح نمو 6.1 تھی، اس شہزادے نے شرح نمو منفی 4 تک کر دی اور پھر 4 تک کر دی۔ مہنگائی کی شرح میں بھی اس شہزادے نے اضافہ کیا۔ مہنگائی 2.3کی شرح سے 13فیصد تک بڑھ گئی۔ مالیاتی خسارا 2260ارب سے 5600ارب تک پہنچا دیا۔ تجارتی خسارہ اس شہزادے نے 30.9 بلین ڈالر سے 43بلین ڈالر تک پہنچا دیا۔

سونے پہ سہاگا یہ شہزادہ آئی ایم ایف سے ایسا معاہدہ کر کے گیا ہے کہ اس شہزادے کے جانے کے باوجود اس کا آئی ایم ایف سے کیا گیا معاہدہ غریب عوام پر بھاری ہے، اس شہزادے نے آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا اس میں یہ بات طے کی گئی تھی کہ بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتیں بڑھائی جائیں گی۔

اس شہزادے نے سیاسی انتقام نہیں لوں گا وعدہ بھی ہوا میں اڑا دیا اور اپنے اوپر تنقید کرنے والے کسی بھی شخص کو نہیں بخشا، کسی کو نوکری سے نکلوا دیا، کسی کو جیل میں ڈال دیا، کسی کو ملک سے بھاگا دیا، کسی کو اغواء کروا دیا، کسی کی ہڈیاں تڑوا دیں، کسی کو شمالی علاقے کی سیر پر بھجوا دیا اور خود خالی میدان میں اقتدار کے مزے لیتا رہا۔

اس شہزادے کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اس ملک کے بڑے بھی سوچ میں پڑ گئے کہ انہوں نے کیا غلطی کر دی۔ اس ملک کی ہر طرف سے سُبکی ہونے لگی۔ آخر تنگ آ کر اس شہزادے کو اقتدار کی کرسی سے اتارنے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن یہ شہزادہ تھا کہ اقتدار سے اترنے کا نام سُن کر ایڑیاں رگڑنے لگا کہ مجھے کیوں نکال رہے ہو۔ جب اتارا گیا تو کہنے لگا مجھے کیوں نکالا۔

اب یہ شہزادہ ایک بار پھر لاہور کے ایک پارک میں بیٹھ کر عوام کو سبز باغ دیکھا رہا ہے کہ میں یہ کردوں گا، وہ کردوں گا۔ مجھے پھر اقتدار دو تو میں سبز باغ کے ساتھ سرخ باغ دیکھاؤں گا۔ عوام بھی پر جوش ہیں لیکن اس بار اگر یہ شہزادہ اقتدار میں آیا تو شاید عوام کو ایسی ایسی ٹوپیاں پہنائے گا کہ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ ہم سے کیا غلطی ہوئی کہ ہم کو اس شہزادے کی شکل میں اتنی بڑی سزا ملی۔ یہ ہونے سے پہلے عوام کو سوچنا ہو گا۔ بعد میں پچھتانے کا کیا فائدہ؟ اس سے پہلے کہ یہ شہزادہ سب عوام کو وہیل چیئر پر بٹھائے عوام کو ہی سوچنا ہو گا کہ اس شہزادے کو اقتدار دینا ہے یا نہیں۔ بڑے مالک تو پہلے ہی اس سے کنارہ کشی اختیار کر گئے ہیں۔

 

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp