ریڈ لائن

جمعہ 19 مئی 2023
author image

محمد وقاص اعوان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ 21 دسمبر کی سرد صبح تھی میں تقریبا کوئی 10 بجے اسمبلی راہداریوں میں مارا مارا پھر رہا تھا ، پارلیمان کے در و دیوار میں اسی بات پر کہیں نا کہیں کوئی نا کوئی بحث کر رہا تھا کہ خان اب جا رہا ہے۔ اس کی وزارت عظمی کے دن گنے جا چکے ہیں بس آج گیا یا کل، میں نے جب سے یہ باتیں سننا شروع کی تھیں میں نے اس بات کا یقین نہیں کیا تھا اس کی بہت سی وجوہات تھیں۔ سب سے بڑی یہ کہ عمران خان اور اس وقت کے آرمی چیف ایک پیچ پر تھے ، پھر جنرل فیض ہر موقع پر بندے پورے کر دیتے تھے خان کو اب کون سے مشکل ہونی تھی۔

خیر ٹھنڈ بھی تھی اور دھوپ مزے کی تھی دفتر جانے کا سوچا ، باہر نکل ہی رہا تھا تو اہم لیگی رہنما اور آجکل وفاقی وزیر اپنی گاڑی سے اترے ، مجھے دیکھتے ہی زیر لب مسکرائے اور ہاتھ تھام کے سائیڈ پر لے گئے بغیر حال چال پوچھے بے ساختہ بولے وقاص صاحب اے فارغ اے ، میں ان کی بات پر ہنس پڑا مجھے یقین تھا یہ ممکن ہی نہیں ، میں نے کہاں سر جی اینی گرمی تے نہیں کہ تسی اے خبراں دے رے او، لیکن وہ پورے یقین کے ساتھ اپنی بات پر قائم تھے کہنے لگے آ جاو اوپر چائے پیتے ہیں ہم پارلیمان کے کیفیٹریا میں بیٹھے تھے میں سوچ رہا تھا کہ یہ ممکن نہیں میاں صاحب کہنے لگے کدھر پھس گئے ہو چائے پیو ۔۔۔۔۔

چائے ہاتھ میں تھی مگر گھونٹ لینے سے پہلے میں نے ان سے سوال کیا ‘وہ’ تو آپ کے ساتھ نہیں ہیں پھر کیسے ، کہنے لگے وہ اس کے ساتھ بھی نہیں ہیں لیکن ہمارے بندے پورے ہیں میں نے کہا کون سے بندے کہنے لگے ہمارے پاس تحریک انصاف کے 13 لوگ ہیں جن کی تعداد کم از کم 26 ہو جائے گی مجھے اب بھی یقین نہیں تھا مرتا کیا نا کرتا اتنا تعلق تھا کہ مجھے کچھ نا کچھ یقین ہونے لگا کہ شاید لیگی رہنما درست ہی کہہ رہے ہیں جاتے جاتے میں نے ان سے پھر پوچھ لیا کہ ان حالات میں وہ ون پیچ والے کہاں ہوں گے تو انہوں نے کہا تحریک عدم اعتماد ہو گی اور اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں ہو گا ، مارچ میں ایک ‘ اہم ‘ چلا جائے گا اور اس کے بعد یہ اکیلا ہو گا ۔

کہانی اصل یہ تھی کہ بندے پورے کرنے والے کے بعد اصل کھیل شروع ہونا ہے ، خیر اتفاق ہوا کہ چند دن بعد سندھ ہاوس جا پہنچا اور پھر ‘ لیگی رہنما ‘ کی ساری کہانی حقیقت لگنے لگی ۔ جب ہر کمرے سے تحریک انصاف کا ایک منحرف رہنما باہر نکلتا تھا ، اور اس وقت ان کی تعداد کوئی 16 کے قریب تھی۔

وقت گزرتا گیا مارچ آیا اور پھر عمران خان بھی ماضی کے وزراء اعظم کی طرح اپنی مدت پوری کیے بغیر گھر چلے گئے ، پاکستان کی تاریخ اس معاملے میں داغ دار ہے منتخب وزراء اعظموں کو گھر بھیجنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے لیکن کیا عمران خان کو جس طرح بھیجا گیا وہ گیلانی یا نواز شریف کی طرح تھا جواب نفی میں ہو گا ۔

اس کے بعد عمران خان کا ہر بیان ، ہر بیانیہ ہی عوام میں مقبول ہوتا چلا گیا ۔کبھی خط ، کبھی امریکہ ، کبھی اسٹیبلشمنٹ ، کبھی باجوہ ۔۔۔۔ انہوں نے جو بولا لوگوں نے تسلیم کیا اس نے جو کہا سب نے مان لیا ، وہ جہاں نکلا لوگ چل پڑے آخر کیوں ۔۔۔۔

اور پھر بات اہم فوجی و عسکری اداروں تک حملوں تک بات جا پہنچی ۔۔۔۔ صاحب بات پتا کیا ہے یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور پھر کپتان کا ایک خاصہ ہے کہ اس میڈیا کو ہینڈل کرنا دوسروں سے بہتر آتا ہے ، پاکستان کی تاریخ میں بہت اتار چڑھاو آئے ہوں گے مگر اج یہ قوم تقسیم کر دی گئی کس نے کی کیوں کی کوئی ایک ذمہ دار نہیں۔

اتنی نفرتیں اتنی سختی ، الزامات اس سے پہلے کبھی نہیں تھا ۔۔۔ لوگ کہتے ہیں عمران خان ایک نظریہ ہے میں تو اسے فرقہ کہتا ہوں کیوں کہ جو اسے نہیں مانتا وہ چور ڈاکو لٹیرا کرپٹ لفافہ سب کچھ ہے مگر محب وطن پاکستانی نہیں ہے۔

اس ملک کے حاکموں اور کرتا دھرتا کے لئے ایک سوال ہے کہ اگر عمران خان ہی ریڈ لائن ہے تو پھر پاکستان کی سالمیت ، ہمارے ادارے ، اس ملک کی سلامتی ، مستقبل یہ سب تو پیچھے ہی رہ جائے گا شخصیات ریڈ لائن ہونے لگی تو پھر کل کسی کو بھی ایسے دھاوا بول کر ریڈ لائن قرار دینا نا ممکن نہیں ہو گا ۔۔۔اپریل 2022 سے آج تک پیغام ایک ہی ہے
Before launching a “PROJECT” : Keep consequences in mind after its execution.

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سماء نیوز کے ساتھ گزشتہ 8 برس سے بطور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ اس سے قبل دیگر میڈیا چینلز کے ساتھ بھی کام کر چکے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp