وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات براہ راست نہیں ہورہے، دونوں ممالک کے درمیان شٹل ڈپلومیسی جاری ہے۔ پاک افغان وفود آمنے سامنے بیٹھ کر بات نہیں کررہے، افغانستان سے جو بات ہوگی وہ تحریری ہوگی اور ترکیہ و سعودی عرب کی گواہی میں ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان کی اندرونی دھڑے بندیوں نے استنبول مذاکرات کو کیسے سبوتاژ کیا؟
نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ دفاع نے بتایا کہ مذاکرات کی کامیابی کے کچھ آثار ضرور موجود ہیں، تاہم حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ان کے مطابق دونوں ممالک کے وفود کے درمیان ڈرافٹس کا تبادلہ ہورہا ہے، افغان طالبان کا ڈرافٹ پاکستان کو موصول ہوتا ہے، اور پاکستان اپنی تجاویز کے ساتھ نیا مسودہ واپس بھیج دیتا ہے۔
پاکستان تحریری معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹے گا
خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کسی زبانی معاہدے پر انحصار نہیں کرے گا، جو بھی بات ہوگی وہ تحریری ہوگی۔ ترکیہ اور سعودی عرب ہمارے لیے انتہائی قابلِ احترام ممالک ہیں، یہی دونوں ملک ثالثی کے کردار میں شامل ہیں اور انہی کی گواہی میں بات چیت آگے بڑھے گی۔
ترکیہ اور سعودی عرب کا کردار
انہوں نے بتایا کہ پاک بھارت جنگ کے دوران ترکیہ نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا، اور بعد میں بھی دونوں ممالک نے پاکستان کی حمایت جاری رکھی۔ اسی لیے پاکستان چاہتا ہے کہ ان مذاکرات میں ترکیہ اور سعودی عرب کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ افغان طالبان بھی یہی چاہتے ہیں کہ یہ دو ممالک ناراض نہ ہوں۔
امریکا ثالثی نہیں کررہا
ایک سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ امریکا ان مذاکرات میں کوئی ثالثی کردار ادا نہیں کررہا۔ امریکی ناظم الامور سے ان کی ملاقات ضرور ہوئی لیکن اس میں اس معاملے پر کوئی بات نہیں ہوئی، صرف پاک امریکا باہمی تعاون پر گفتگو کی گئی۔
ڈرافٹس ترکیہ اور سعودی عرب کی تجویز پر بن رہے ہیں
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے دوران جو مسودے تیار کیے جارہے ہیں وہ ترکیہ اور سعودی عرب کی تجاویز پر مبنی ہیں۔ دوحہ مذاکرات کی طرح یہاں بھی اگر کسی کو کوئی شق تبدیل کرنی ہو تو وہ اپنی تجویز دے دیتا ہے اور اس پر باہمی رضامندی سے ترمیم کرلی جاتی ہے۔
افغانستان کے ڈیم منصوبے پر پاکستان کا مؤقف
افغانستان کی جانب سے دریائے کابل پر ڈیم بنانے کے اعلان کے حوالے سے وزیرِ دفاع نے کہا کہ اس سے پاکستان کو کوئی خاص نقصان نہیں ہوگا۔ ان کے مطابق پانی کی کمی کے دوران دریائے کابل سے معمولی مقدار میں پانی آتا ہے، جس سے خریف کی فصلوں پر زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پاک افغان مذاکرات ناکام، خواجہ آصف نے طالبان کو وارننگ دے دی
انہوں نے مزید کہا کہ دریا کے قدرتی بہاؤ کو موڑنا بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے، اس معاملے کو باہمی تعاون سے ہی حل کیا جا سکتا ہے، کوئی ملک اکیلا ایسا اقدام نہیں کرسکتا۔
اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کے سیاسی مشیر رانا ثنااللہ نے کہا کہ افغان طالبان زبانی بات تو مانتے ہیں لیکن تحریری معاہدہ کرنے پر تیار نہیں، اگر افغان طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کے لیے معاہدہ نہیں کرتے تو پاکستان خود اس کے لیے کارروائی کرے گا۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ پاکستان کا مطالبہ افغان طالبان سے بالکل سیدھا اور واضح ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی طرح پاکستان کے خلاف دہشتگردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ اُن کے بقول، اس وعدے کو افغان طالبان نے دوحہ معاہدے میں پوری دنیا کے سامنے کیا تھا کہ ان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: مذاکرات کا نیا دور: قطر اور ترکیہ کے کہنے پر ہمارا وفد ایئر پورٹ سے واپس ہوا، خواجہ محمد آصف
یاد رہے کہ یاد رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جھڑپیں اور پاکستانی فضائی حملے اس وقت شروع ہوئے تھے جب اسلام آباد نے کابل سے مطالبہ کیا کہ وہ ان باغیوں کو کنٹرول کرے جو پاکستان میں حملے بڑھا رہے تھے،پاکستان کا مؤقف ہے کہ یہ جنگجو افغانستان میں محفوظ ٹھکانوں سے کارروائیاں کر رہے تھے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا تھا کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں مذاکرات ناکام ہوگئے۔ افغان وفد نے بنیادی نکتہ سے کر بحث کو موڑنے کی کوششیں کیں جس کی وجہ سے مذاکرات متوقع نتیجہ تک نہیں پہنچے۔
وزیر اطلاعات نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ پاکستان نے استنبول میں افغانستان کے نمائندہ وفد کے ساتھ 4 روزہ مذاکرات کے بعد امیدوں اور احتیاطی حکمت عملی دونوں کے ساتھ اپنی پالیسی کی تصویر واضح کی ہے۔
مزید پڑھیں: جنگ میں 6 جہاز گرنے کے بعد بھارت کھیل کے میدان میں اپنی خفت مٹا رہا ہے، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
قطر اور ترکی کی ثالثی میں ہونے والی یہ بات چیت امن اور استحکام کے قیام کے لیے ایک نئی کوشش تھی جس میں بنیادی ایجنڈا افغان سرزمین کو دہشتگردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے سے روکا جانا تھا۔














