وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 27 ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری دے دی گئی اور اس کا بھرپور خیرمقدم کیا گیا۔ اجلاس کی صدارت وزیراعظم نے ویڈیو لنک کے ذریعے باکو سے کی۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں وزیرِ اعظم نے کابینہ ارکان اور اتحادی جماعتوں کے نمائندگان کا خیرمقدم کیا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ کابینہ کی منظوری کے بعد وزیرِ قانون و انصاف نے میڈیا کو ترمیم کے خدوخال پر بریفنگ دی۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ وفاق اور صوبوں کے تعلقات کی مضبوطی اور ملک کے وسیع مفاد میں 27 ویں آئینی ترمیم کے لیے سب نے مشترکہ کوشش کی۔ انہوں نے وزارت قانون و انصاف، اٹارنی جنرل اور ان کی ٹیم کو اس کامیاب عمل کے لیے لائق تحسین قرار دیا۔
وزیرِ اعظم نے مزید کہا کہ انہوں نے ترمیم پر اپنے قائد میاں محمد نواز شریف اور صدر مملکت آصف علی زرداری کو اعتماد میں لیا اور ان کی رہنمائی اور رضامندی پر تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔
انہوں نے تمام اتحادی جماعتوں کے سربراہان، بالخصوص بلاول بھٹو زرداری، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، عبدالعلیم خان، خالد حسین مگسی اور چوہدری سالک حسین کا بھی شکریہ ادا کیا، جنہوں نے اپنے وفود کے ہمراہ ترمیم کی بھرپور تائید کی۔ علاوہ ازیں، ایمل ولی خان، اعجاز الحق اور دیگر سیاسی رہنماؤں سے بھی مشاورت کی گئی۔
وزیرِ اعظم نے کہا ’اللہ کے فضل و کرم سے ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کی بدولت ملک کی سمت درست ہوئی۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔‘
وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد اب ترمیمی بل کو سینیٹ میں پیش کردیا گیا، بعدازاں چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے اسے قائمہ کمجیٹی برائے قانون و انصاف کے حوالے کردیا، جس کے بعد اسے قانون کی شکل دی جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ترمیمی بل آج سینیٹ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں:27ویں آئینی ترمیم: آرٹیکل 243 پر حکومت کی حمایت کریں گے، دیگر نکات پر غور کر رہے ہیں، بلاول بھٹو

اتحادیوں کے ساتھ میثاق جمہوریت میں مجوزہ آئینی عدالت پر اتفاق ہوا، اعظم نذیر تارڑ
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی کابینہ کی صدرات وزیراعظم شہباز شریف نے باکو سے آن لائن کی۔
ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کو 27ویں آئینی ترمیم سے متعلق بریفنگ دی گئی جو آج سینیٹ میں پیش کیا جائے گا، اس کے بعد اسے ایک جوائنٹ کمیٹی کے سپرد کیا جائے گا تاکہ بل کی شقوں پہ سیر حاصل گفتگو ہوسکے۔
وزیر قانون نے کہا کہ ہم نے اتحادی جماعتوں سے مشاورت کی ہے، مشاورت کے بعد جن نکات پر اتفاق ہوا ان میں میثاق جمہوریت میں مجوزہ آئینی عدالت شامل ہے، بل میں تجویز ہے کہ ججز ٹرانسفر کا معاملہ جوڈیشل کمیشن کے سپرد کیا جائے گا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں سینیٹ الیکشن تاخیر کا شکار ہوئے، سینیٹ کی مدت 6 برس ہے اور یہ تحلیل نہیں ہوتی، اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے متعلقہ شق میں ترمیم تجویز کی گئی ہے جس کے بعد ممبران کی مدت میں اگر کچھ عرصہ ضائع ہوا ہو تو وہ بھی مدت میں شامل ہوگا تاکہ ایک ساتھ الیکشن ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہ چھوٹے صوبوں کی شکایت تھی کہ کابینہ کا تھریش ہولڈ 11 فیصد رکھا گیا تھا جس سے وزارتیں پوری نہیں ہورہی ہیں، اب سے 13 فیصد کیا جائے گا تاکہ ایک وزیر کو زیادہ محکمے سنبھالنے نہ پڑے۔
وزیر قانون نے کہا کہ حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ فیلڈ مارشل کے عہدے کا آئین میں ذکر کرکے اسے تاحیات رہنا چاہیے، اسی طرح بحری اور فضائی افواج میں بھی متوازن ٹائٹل ہونے چاہئیں۔ ایم کیو ایم نے کچھ ترامیم تجویز کی تھیں، کوشش ہوگی کہ وہ بھی پاس ہوں۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ترمیم کے نکات اپنی کمیٹی میں لے گئی اور جن چیزوں پر کمیٹی کا اتفاق ہوا ہمیں انہیں پارلیمان میں لانے کا کہا تاکہ اتفاق سے انہیں پاس کیا جائے، باقی نکات کو ابھی روکا جا رہا ہے۔
پیپلزپارٹی آرٹیکل 243 پر حکومت کی حمایت کرے گی
قبل ازیں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ان کی جماعت 27ویں آئینی ترمیم میں آرٹیکل 243 پر حکومت کی حمایت کرے گی، جبکہ دیگر نکات پر بھی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں:27ویں آئینی ترمیم پر اتفاقِ رائے کی کوشش کی جائے گی، رانا ثنااللہ
اسلام آباد میں پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی اصولی طور پر ’’آئینی عدالت‘‘ کے قیام کے حق میں ہے۔ ان کے مطابق، ہم آرٹیکل 243 پر حکومت کی حمایت کریں گے اور دیکھیں گے کہ مزید کن نکات پر اتفاق ہو سکتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی چاہتی ہے ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کی باقی شقوں کو بھی عملی شکل دی جائے تاکہ جمہوری عمل مضبوط ہو۔
ججوں کے تبادلوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہماری تجویز ہے کہ جس عدالت سے کسی جج کا تبادلہ کیا جا رہا ہو اور جس عدالت میں بھیجا جا رہا ہو، دونوں کے چیف جسٹسز کو اس کمیشن میں شامل کیا جائے جو تبادلوں کا فیصلہ کرے۔
مزید پڑھیے: پنجاب میں پیپلز پارٹی کے شریک اقتدار ہونے کا امکان
انہوں نے مزید کہا کہ کمیشن متعلقہ جج کو بلا کر اس کی رائے بھی حاصل کر سکتا ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ جہاں تک جیوڈیشل مجسٹریٹس کے معاملے کا تعلق ہے، بلاول بھٹو کے مطابق، اس پر پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی میں ابھی اتفاق نہیں ہوا، لہٰذا اس وقت وہ اس حوالے سے کوئی حتمی موقف نہیں دے سکتے۔














