قومی ایئرلائن پی آئی اے کی نجکاری کی باتیں 2014 سے جاری ہیں، مگر 11 سال گزرنے کے باوجود یہ عمل مکمل نہیں ہو سکا۔ اب تاخیر کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دلچسپی رکھنے والی پارٹیوں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے ذمے واجب الادا 35 ارب روپے کی ادائیگی سے انکار کر دیا ہے۔
ٹیکس واجبات اور قرضے سب سے بڑی رکاوٹ
سیکریٹری نجکاری کمیشن عثمان باجوہ کے مطابق پی آئی اے پر ایف بی آر کے 28 ارب روپے کے ٹیکس واجبات اور سی اے اے کے 7 ارب روپے کے قرضے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پی آئی اے نجکاری: واحد کمپنی بلیو ورلڈ سٹی نے ریزور سے کم بولی لگادی، معاملہ ملتوی
خریدار کمپنیاں ان واجبات کو ادا کرنے پر آمادہ نہیں، جس کی وجہ سے موجودہ بزنس فریم ورک پیچیدہ ہو گیا ہے۔ حکومت مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے تاکہ خریداروں کو مالی دباؤ سے نجات دلائی جا سکے۔
اثاثوں کی فروخت سے 500 ارب کی آمدن کا امکان
سیکریٹری کے مطابق حکومت پی آئی اے کے نیویارک میں واقع روزویلٹ ہوٹل اور پیرس کے ہوٹل کی فروخت یا مشترکہ سرمایہ کاری پر غور کر رہی ہے۔

ان دونوں اثاثوں سے تقریباً 500 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے، جو پی آئی اے کے قرضوں کی ادائیگی میں مدد دے گی۔ روزویلٹ ہوٹل کی 17 منزلہ عمارت گرا کر نئی عمارت تعمیر کرنے کا منصوبہ بھی زیرِ غور ہے۔
جہازوں کی دیکھ بھال میں مشکلات
پی آئی اے کے پاس جہازوں کی مرمت اور دیکھ بھال کے محدود وسائل ہیں، جس کی وجہ سے ایئرلائن اپنی کارکردگی بہتر بنانے میں مشکلات کا شکار ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پی آئی اے کی نجکاری میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟
عثمان باجوہ کے مطابق کچھ بین الاقوامی ایئرلائنز چاہتی ہیں کہ پی آئی اے کمزور حالت میں رہے تاکہ وہ پاکستانی مارکیٹ سے زیادہ مسافروں کو حاصل کر سکیں۔
نجکاری کا عمل دسمبر 2025 تک مکمل کرنے کا ہدف
سیکریٹری نجکاری کمیشن کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بولی کا عمل رواں ماہ شروع کیا جائے گا، جبکہ دسمبر 2025 تک اس عمل کو مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

نجکاری کے بعد پی آئی اے کو ایک مستحکم اور خود مختار ادارہ بنانا مقصد ہے تاکہ وہ اپنی ساکھ بحال کر سکے۔
ایئرپورٹس کی تزئین و آرائش اور آؤٹ سورسنگ
عثمان باجوہ کے مطابق کراچی اور لاہور ایئرپورٹس پر مسافروں کی گنجائش بڑھانے کے لیے تزئین و آرائش کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد ایئرپورٹ کو متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے ساتھ جی ٹو جی (G2G) بنیادوں پر آؤٹ سورس کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔














