سپریم کورٹ نے فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے اہلکار حسن آفریدی کو بحال کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف خفیہ انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر کسی ملازم کو برطرف نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
دورانِ سماعت حسن آفریدی کے وکیل عمر فاروق آدم نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے موکل کو منشیات اسمگلنگ کے الزام میں محض ایک خفیہ انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر ملازمت سے برطرف کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کی عوام دوست عدالتی اصلاحات پر پیش رفت رپورٹ جاری
درخواست گزار کے مطابق استغاثے میں اس رپورٹ کے علاوہ کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا انٹیلی جنس رپورٹ کے علاوہ کوئی ٹھوس مواد بھی پیش کیا گیا تھا۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ انٹیلی جنس رپورٹ پر مکمل طور پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ خیبرپختونخوا اسکولوں کی خستہ حالی پر برہم، حکومت کو 6 ماہ کی مہلت
انٹیلیجنس والے تو بعض اوقات لوگوں کو وومنائزر بھی بنا دیتے ہیں۔ جس کو اچھا نہیں سمجھتے، اس کے خلاف رپورٹ بنا دیتے ہیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ جب کسی اہلکار کے خلاف ٹھوس شواہد نہ ہوں تو صرف خفیہ رپورٹ کی بنیاد پر سزا دینا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے حسن آفریدی کی برطرفی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی سروس بحال کرنے کا حکم دے دیا۔














