قومی اسمبلی نے 27ویں آئینی ترمیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری دے دی

بدھ 12 نومبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی 27ویں آئینی ترمیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری دے دی۔

اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیرصدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئینی ترمیم کی منظوری دی گئی۔ آئینی ترمیم کے حق میں 234 ارکان نے ووٹ دیا، جبکہ جے یو آئی کے 4 ارکان کی جانب سے مخالفت کی گئی۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد آئینی ترمیم کا بل ایوان میں پیش کیا جسے دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا گیا۔

مزید پڑھیں: 27ویں ترمیم میں ووٹ کے لیے نواز شریف کی پارلیمنٹ آمد، قائد مسلم لیگ ن نے کتنے اجلاسوں میں شرکت کی؟

قبل ازیں قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ 27ویں ترمیم کے بل کے خدوخال سینیٹ میں سامنے رکھ دیے تھے جو سینیٹ میں دوتہائی اکثریت سے پاس ہوگئی، اس کے بعد آئینی تقاضوں کے مطابق یہ بل اسمبلی میں بھی پیش کیا گیا جس پر اپوزیشن اور حکومتی اراکین نے اپنی تقاریر میں رائے بھی دی۔

’چیف جسٹس پاکستان کا عہدہ برقرار رہےگا‘

وزیر قانون نے خطاب میں کہاکہ چیف جسٹس پاکستان کا عہدہ برقرار رہے گا، اور جسٹس یحییٰ آفریدی ہی چیف جسٹس پاکستان رہیں گے، عدلیہ سے متعلق ترمیم میں ابہام تھا جسے دور کردیا گیا۔

’حمزہ شہباز اور شگفتہ جمانی نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا‘

مسلم لیگ ن لیگ کے رکن اسمبلی حمزہ شہباز اور پیپلزپارٹی کی شگفتہ جمانی نے آئینی ترمیم میں ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔

اتفاق رائے کے بغیر 18ویں ترمیم میں تبدیلی نہیں ہوگی، وزیراعظم

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے 27ویں آئینی ترمیم کی قومی اسمبلی سے منظوری پر کہا ہے کہ آج اس ایوان نے قومی اتحاد کو فروغ دیا۔ ملک کو آگے لے کر جانے کے لیے گالم گلوچ کی سیاست کو ختم کرنا ہوگا۔

آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہاکہ میں ارکان اسمبلی کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور مبارکباد دیتا ہوں۔

انہوں نے کہاکہ ہمیں گالم گلوچ اور افراتفری کی سیاست کو ختم کرنا ہوگا، اس وقت اللہ نے پاکستان کو عسکری اور سفارتی محاذ پر جو عزت دی، وہ اس سے قبل نہیں تھی۔

وزیراعظم نے کہاکہ معرکہ حق کے بعد جب ہم نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کا اعزاز دیا تو پوری قوم نے اس کو سراہا، اب جب آئین میں اس کو شامل کیا جارہا ہے تو اس میں کیا بری بات ہے۔ قومیں اپنے ہیروز کو ایسے ہی عزت دیتی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ معرکہ حق کے بعد اب ہم جس ملک میں جاتے ہیں وہاں ہمارا فقید المثال استقبال ہوتا ہے، لیکن اس سے قبل ہم نے ایسا کبھی سوچا نہیں تھا۔

وزیراعظم نے کہاکہ میں ہر اس چیز کے خلاف ہوں جو وفاق کو کمزور کرے۔ کالا باغ ڈیم ملک کے مفاد میں ہے لیکن اس سے وفاق کے کمزور ہونے کا خطرہ ہے، اس لیے میں اس کے حق میں نہیں ہوں۔

شہباز شریف نے کہاکہ ہماری اور بلاول بھٹو کی سوچ میں کوئی فرق نہیں، اتفاق رائے کے بغیر 18ویں ترمیم میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ ہم کچھ اہم معاملات پر مل بیٹھ کر بات کریں گے۔

کسی کا باپ بھی 18ویں آئینی ترمیم کو ختم نہیں کر سکتا، بلاول بھٹو

قبل ازیں چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کسی کا باپ بھی چاہے تو 18ویں ترمیم ختم نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہاکہ ایک سال پہلے 26ویں ترمیم پاس ہوئی، اس وقت ہم نے کوشش کی تھی کہ سب کی مشترکہ کوششوں اور مشاورت سے آئین سازی ہو، 1973 کا آئین ہو یا 18ویں ترمیم ہو وہ ہم نے مشاورت کے ساتھ پاس کی، ہم نے 26ویں ترمیم بھی مشاورت سے کی، جس کے تحت آئینی بینچز بنے، اس کے لیے پوری سیاسی مشاورت ہوئی۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم نے مولانا فضل الرحمان سے مشاورت کی جنہوں نے پی ٹی آئی کو بھی انگیج کیا، جب 26ترمیم ہوئی تو نہ صرف مولانا فضل الرحمان نے ساتھ دیا بلکہ پی ٹی آئی نے بھی ووٹ دیے بغیر ساتھ دیا، پی ٹی آئی کی اجازت سے 26ویں ترمیم ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ اب 27ویں ترمیم ہورہی ہے، اور اس میں ہم چارٹر آف ڈیموکریسی کے نامکمل ایجنڈے کو مکمل کرنے جارہے ہیں، اب آئینی عدالت بننے جا رہی ہے اور آرٹیکل 243 میں بھی تبدیلی کی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:27ویں آئینی ترمیم میں تکینکی غلطی نہیں، قومی اسمبلی نے اچھی تجاویز دیں جس پر غور ہورہا ہے، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ

ان کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت جو ہمارے دفاعی ادارے ہیں، ان کے بارے میں کچھ ترمیم لیکر آرہے ہیں، کسی قانون سازی کی اصل طاقت یہ نہیں ہوتی کہ وہ کتنی بھاری اکثریت سے پاس ہوئی ہے بلکہ اس کے لیے سیاسی مشاورت کتنی ہوئی یہ اصل طاقت ہے، 1973 کا آئین بھی آج تک اس لیے غیر متنازع ہے کہ قائد ذوالفقار علی بھٹو نے مشاورت سے یہ آئین بنایا اور ایوانوں سے منظور ہوا۔

انہوں نے کہاکہ جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے ایک اور آمریت کا مقابلہ کرکے حکومت سنبھالی تو ہم نے 18ویں ترمیم پاس کی، اس ترمیم نے صوبوں کو حقوق دلوائے، یہ ترمیم سیاسی مشاورت سے ہوئی، اس لیے اس ترمیم میں اتنی طاقت ہے کہ کسی کا باپ بھی چاہے تو اس کو ختم نہیں کرسکتا۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 18ویں ترمیم پر مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے دستخط ہیں، 27ویں ترمیم کے لیے بھی حکومت کے پاس اکثریت موجود ہے مگر یہ ترمیم زیادہ طاقتور ہوتی اگر اپوزیشن بھی اپنا نقطہ نظر سامنے رکھتی۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا کام صرف یہ نہیں کہ وہ اپنے لیڈر کے لیے رونا دھونا کرے، اپوزیشن کا یہ بھی کام تھا کہ وہ بھی ان کمیٹیز میں بیٹھے اور بتاتے کہ یہ تجویز غلط ہے اور ہماری یہ تجویز ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف حصوں میں حالیہ دنوں میں دہشتگردی کے واقعات پیش آئے ہیں جن کی وہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پوری قوم کی جانب سے شدید مذمت کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:27ویں آئینی ترمیم میں تکینکی غلطی نہیں، قومی اسمبلی نے اچھی تجاویز دیں جس پر غور ہورہا ہے، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ

انہوں نے کہاکہ سیاسی اختلافات جمہوری عمل کا حصہ ہیں، تاہم جب بات قومی سلامتی اور دہشتگردی کے خاتمے کی ہو تو تمام سیاسی قوتوں کو ایک صفحے پر آنا چاہیے۔ ملک کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ صرف اتحاد اور اتفاق سے ہی ممکن ہے۔ پورے ملک کو ایک ہوکر دہشتگردوں اور درندوں کا مقابلہ کرنا پڑےگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک بار پھر دہشتگرد سر اٹھا رہے ہیں، مگر پاکستان نے پہلے بھی دہشتگردوں کو شکست دی اور اب بھی ان کو شکست دے گی، پاکستان کی عوام، افواج اور سول سوسائٹی نے قربانیاں دے کے دہشتگردوں کو شکست دی اور وہ کام کیا جو افغانستان میں نیٹو فورسز نہ کرسکیں۔

نوازشریف کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت

پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی، اور 27ویں آئینی ترمیم پر ووٹنگ کے عمل کا حصہ بن گئے۔ نوازشریف ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے قومی اسمبلی پہنچے تو ن لیگی ارکان اسمبلی نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا۔

اجلاس کے دوران شیر افضل مروت نے وزیراعظم شہباز شریف سے ان کی نشست پر آ کر مصافحہ کیا، شہباز شریف نے نواز شریف سے شیر افضل مروت کو ملوایا اور ان کا تعارف کرایا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیئر رہنما سید خورشید شاہ 27 ویں آئینی ترمیم  پر ووٹ دینے کے لیے وہیل چیئر پر پارلیمنٹ پہنچے۔ اس موقع پر مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف اپنی نشست سے اٹھ کر خورشید شاہ کے پاس گئے اور ان کا حال احوال دریافت کیا۔

27 ویں آئینی ترمیم میں کوئی تکنیکی غلطی نہیں، وزیر قانون

قبل ازیں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کے ایوان نے دو، تین اچھی تجاویز دی ہیں، اس پر بات ہورہی ہے۔

قومی اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم میں تکنیکی غلطی کوئی نہیں ہے۔ آج قومی اسمبلی میں 27 ویں آئینی ترمیم پر ووٹنگ ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر مسودے میں کسی قسم کی ترمیم کی ضرورت ہوئی تو اس حد تک اسے سینیٹ میں دوبارہ پیش کیا جائے گا۔ حتمی ترامیم کے اثرات میں ایک دو جگہوں پر مزید وضاحت کے لیے ترمیم کی جاسکتی ہے۔

تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا، عطا تارڑ

وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ پارلیمان ملک کا سب سے بڑا اور بااختیار ادارہ ہے، مگر اپوزیشن حقائق کو پسِ پشت ڈال رہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ حقیقی قانون سازی اپوزیشن کو برداشت نہیں ہو رہی، جبکہ تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا۔ عطا اللہ تارڑ نے سوال اٹھایا کہ جب اُس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری آئین شکنی کررہے تھے تو اپوزیشن کیوں خاموش تھی۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے مزید کہاکہ نفرت کے بیج بونے والوں کو قوم کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی والے مشرف کے ریفرنڈم میں پیش پیش تھے، اور آج جمہوریت کی باتیں کرتے ہیں۔

عطا اللہ تارڑ نے کہاکہ کاش ہمیں ایک حقیقی سیاسی اپوزیشن میسر ہوتی۔ پی ٹی آئی نے 27ویں آئینی ترمیم پر کوئی بھی تجویز پیش نہیں کی، حالانکہ اگر وہ شق وار تجاویز دیتے تو قانون سازی مزید بہتر ہو سکتی تھی۔

27ویں آئینی ترمیم سینیٹ میں دوبارہ لانے کا فیصلہ نہیں ہوا، شہادت اعوان

مسلم لیگ ن کے سینیٹر شہادت اعوان نے کہاکہ 27ویں آئینی ترمیم سینیٹ میں دوبارہ لانے کا فیصلہ نہیں ہوا، اگر قومی اسمبلی نے 59 شقوں کے علاوہ کوئی ترمیم منظور کی تو اس مخصوص ترمیم کو منظور کرانے کے لیے سینیٹ میں پیش کیا جا سکتا ہے، لیکن فی الحال ایسی کوئی ترمیم زیر غور نہیں۔

27ویں آئینی ترمیم جمہوریت کے منہ پر داغ ہے، شہریار آفریدی

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہریار آفریدی نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ 27ویں آئینی ترمیم عوام کے ساتھ مذاق ہے اور جمہوریت کے منہ پر داغ ہے، کبھی 4 کروڑ عوام کے وزیراعلیٰ کو اڈیالہ جیل کے سامنے ذلیل کرتے ہیں اور کبھی کچھ کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے فیصلے کوئی اور کرے اور میڈیا کے منہ پر پٹی باندھی جائے تو ایسی قوموں پر اللہ کی رحمت نازل نہیں ہوتی، آئینی ترمیم کے لیے ایم این ایز کو خریدنے کے پیسے ہیں لیکن بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے نوجوان پھر بھی کیوں مایوس ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ طالبان آپ کے لاڈلے تھے آج کیا ہوا؟ پولیس اور لیویز کو بااختیار کیوں نہیں بنایا جاتا اور جرگہ کو اہمیت کیوں نہیں دی جاتی۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ مذاکرات کی پیشکش کی جاتی ہے لیکن جس سے مذاکرات کرنے ہیں وہ آپ کی حراست میں ہے ان سے کیوں مذاکرات نہیں کرتے؟

اسپیکر سردار ایاز صادق کی اپوزیشن کو مذاکرات کی ایک بار پھر پیشکش

اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اپوزیشن کو ایک بار پھر مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی مسائل کا حل صرف بات چیت اور اتفاقِ رائے میں ہے۔

قومی اسمبلی کے جاری اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے اسپیکر نے کہا ’وزیرِ اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے بھی اسی ایوان میں کھڑے ہو کر اپوزیشن کو بار بار مذاکرات کی دعوت دی، جبکہ وفاقی وزیرِ قانون و انصاف نے بھی متعدد بار یہی پیشکش کی۔‘

سردار ایاز صادق نے کہا کہ وہ بطورِ اسپیکر، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کے لیے سہولت کاری کے لیے تیار ہیں۔ اگر حکومت اور اپوزیشن آپس میں بیٹھیں گے تو یقیناً راستے نکلیں گے۔

’اگر پہلے دن کوئی نتیجہ نہ بھی نکلے تو بات چیت جاری رکھنے سے بالآخر بہتری کے دروازے کھلیں گے۔‘

اسپیکر نے مزید کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کو مذاکرات کے پلیٹ فارم پر لانا ان کی ذمہ داری ہے، اور وہ یہ کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

اپوزیشن بنچوں کی جانب دیکھتے ہوئے اسپیکر ایاز صادق نے کہا ’میں نے آپ کے لیڈر کو دو مرتبہ ہرایا ہے، اور اس الیکشن میں بھی میرے خلاف کوئی پٹیشن دائر نہیں ہوئی۔ کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ میرے حلقے کے انتخابی نتائج غلط ہیں۔ پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم عوام کے حقیقی نمائندے نہیں؟‘

انہوں نے اپوزیشن سے اپیل کی کہ وہ لڑائی اور اختلافات کے بجائے قومی مفاہمت کا راستہ اختیار کرے۔

’میں اپوزیشن سے کہتا ہوں کہ میری مذاکرات کی دعوت قبول کریں، حل اسی ایوان سے نکلے گا، لڑائی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔‘

اسپیکر قومی اسمبلی نے مزید کہا کہ ’آپ کہتے ہیں کہ بھارت، افغانستان اور ایران سے مذاکرات کریں تو اس کے لیے بھی یہاں بیٹھنا پڑے گا۔ اگر ہم اپنے ہی ایوان میں بات چیت نہیں کر سکتے، تو دنیا سے کیسے کریں گے؟‘

27 ویں ترمیم پر ووٹنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، بیرسٹر گوہر

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ وہ 27 ویں ترمیم پر ووٹنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، واک آؤٹ بھی کریں گے، احتجاج بھی کریں گے اور تقریریں بھی کریں  گے۔

قومی اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہم نے اعلان کیا ہے کہ ہم 27 ویں ترمیم کے پراسیس کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ہم واک آؤٹ بھی کریں گے اور احتجاج بھی کریں گے۔ البتہ اسمبلی میں تقاریر کریں گے۔

بیرسٹر گوہر نے کہاکہ نواز شریف قومی اسمبلی اجلاس میں آئیں یا نہ آئیں، وہ غیر متعلقہ ہوچکے ہیں۔ جس طرح انہیں لایا گیا ہے، ان کے لیے ریڈ کارپٹ بچھایا گیا، لیکن پارلیمان میں ان کے لیے کسی نے ریڈ کارپٹ نہیں بچھایا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے خواجہ محمد آصف کو مخاطب کرکے استفسار کیا کہ  کیا راجا پرویز اشرف کے خلاف پٹیشن لے کر آپ افتخار چوہدری کے پاس نہیں گئے؟ میاں صاحب خود وکیل بن گئے تھے، کیا وہ امیر المومنین کی حیثیت سے سپریم کورٹ جا کر میموگیٹ کمیشن بنوانے کے لیے نہیں گئے تھے؟ انہوں نے کہا کہ جو ججز چلے گئے، چاہے وہ اچھے تھے یا برے، ان کے بارے میں غلط الفاظ نہ کہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

سینیٹ اجلاس کا ایجنڈا جاری، 27ویں ترمیم میں مزید ترامیم کی منظوری ایجنڈے میں شامل

پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ون ڈے سیریز کے 2 میچز کا شیڈول تبدیل

خواجہ آصف، عطا تارڑ اور محسن نقوی کا دورہ پاکستان جاری رکھنے کے فیصلے پر سری لنکن ٹیم سے اظہار تشکر

افغانستان کی جانب سے تجارتی بندش کی بات کسی نعمت سے کم نہیں، خواجہ آصف

افغانستان خود کش حملہ آوروں کے ذریعے ہی لانگ رینج حملے کرسکتا ہے، طلال چوہدری

ویڈیو

بلاول بھٹو کی قومی اسمبلی میں گھن گرج، کس کے لیے کیا پیغام تھا؟

27 ویں ترمیم پر ووٹنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، بیرسٹر گوہر

19ویں صدی میں رحیم یار خان میں بننے والا شاہی ریلوے اسٹیشن اب کس حال میں ہے؟

کالم / تجزیہ

کیا عدلیہ کو بھی تاحیات استثنی حاصل ہے؟

تبدیل ہوتا سیکیورٹی ڈومین آئینی ترمیم کی وجہ؟

آنے والے زمانوں کے قائد ملت اسلامیہ