پاکستان ایک بار پھر ایسے فتنہ گروہ کے نشانے پر ہے جو مساجد، بازاروں، اسکولوں اور سیکیورٹی اداروں پر حملے کر کے ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مساجد کی حرمت پامال کرنے والے یہ عناصر مسلمان کہلانے کے قابل ہیں؟ اور یہ کون لوگ ہیں؟
یہ سوال ہر پاکستانی کے ذہن میں گونج رہا ہے، خصوصاً اس وقت جب خودکش حملوں، بارودی دھماکوں، پولیس اور فوج پر حملوں اور اسکولوں کی تباہی نے ایک پورے خطے کو عدم استحکام کا شکار کر رکھا ہے۔
خوارج، تاریخی پس منظر اور آج کی مماثلت:
اسلامی تاریخ میں خوارج وہ گروہ تھا جو مسلمانوں کو معمولی اختلاف پر کافر قرار دیتا تھا مساجد میں قتل و غارت کو جائز سمجھتا تھا۔
حکمرانوں کے خلاف بغاوت کو عبادت سمجھتا تھا ’صرف ہم مسلمان ہیں‘ کا دعویٰ کرتا تھا۔ ریاست کو کمزور کرنا ’جہاد‘ سمجھتا تھا۔ عورتوں، بچوں، عام مسلمانوں کا قتل روا رکھتا تھا، آج کے شدت پسند گروہ انہی خصوصیات کا عملی نمونہ ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ تلوار رکھتے تھے، یہ بارودی جیکٹیں اور بم رکھتے ہیں۔
سوال پیدہ ہوتا ہے کہ کیا یہ فتنہ ماضی یا دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی پایا جاتا رہا ہے؟ بلکل اس میں کوئی دوسری رائے نہیں۔
خوارج جیسی فکری تحریک کے اثرات:
شام و عراق میں داعش
افغانستان میں داعش خراسان
الجزائر میں GIA
نائجیریا میں بوکو حرام
صومالیہ میں الشباب
یہ سب گروہ ریاستوں کو چیلنج کرتے ہیں، مساجد و مدارس کو نشانہ بناتے ہیں۔ مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں، حکومتیں گرانے کو ’جہاد‘ سمجھتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کا مسئلہ کوئی انوکھا نہیں۔ یہ فتنۂ خوارج کا جدید عالمی ورژن ہے۔
پاکستان میں موجود شدت پسند عناصر، قبائلی پس منظر اور حقیقت؛
زیادہ تر ایسے گروہ قبائلی خطوں، خصوصاً پختون بیلٹ سے نکلتے ہیں۔ لیکن یہ بات انتہائی اہم ہے کہ پختون قوم نہیں، صرف مخصوص شدت پسند گروہ ذمہ دار ہیں۔
پختون قوم نے فوج، پولیس اور پاکستان کیلئے قربانیاں دی ہیں۔ اصل مسئلہ وہ گروہ ہیں جو ریاست کو نہیں مانتے، آئین کو کفر کہتے ہیں،
ٹیکس اور ریاستی قوانین کو نہیں مانتے، فوج اور پولیس کو ’ہدف‘ سمجھتے ہیں، اسکولوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔
پختون قوم کے نام پر پختون بچوں کا مستقبل تباہ کر رہے ہیں یہ گروہ اسلام، پاکستان اور پختون معاشرے تینوں کے دشمن ہیں۔
سوال: کیا مساجد کی حرمت پامال کرنے والے لوگ مسلمان کہلانے کے قابل ہیں؟
قرآن، حدیث، اور اکابر علما کی روشنی میں
- قرآن کا فیصلہ
مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ… فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا
’جو ایک بے گناہ کو قتل کرے وہ پوری انسانیت کا قاتل ہے۔ مسجد میں قتل کرنا گناہ نہیں، بدترین بغاوت ہے۔
- حدیث کا فیصلہ
نبی ﷺ نے فرمایا: ’خوارج شر الخلق‘ (خوارج بدترین مخلوق ہیں)
- اس سلسلے میں مفتی تقی عثمانی
’مسجد میں حملہ کرنے والا انسان ہو ہی نہیں سکتا، مسلمان ہونا تو دور کی بات ہے‘۔ اسی طرح مولانا طارق جمیل کے مطابق ’ان کے اعمال اسلام کی توہین ہیں۔ یہ نہ مجاہد ہیں، نہ دین کے خادم، یہ صرف قاتل ہیں‘۔
اس سلسلے میں جامعہ الازہر (مصر) کا فتویٰ بڑا واضح ہے کہ ’جو گروہ نماز پڑھتے مسلمانوں کو مسجد میں مارے، وہ مسلمان نہیں رہتا‘۔
علامہ اقبال نے ایسے ’مجاہد‘ کو انارکسٹ کہا کہ ’یہ قوم، دین، ریاست، کسی کے نہیں ہوتے‘۔
اس لیے جواب واضح ہے کہ مساجد کی حرمت پامال کرنے والے، مسلمانوں کو کافر کہنے والے، ریاست پر حملہ آور گروہ خوارج کے جدید وارث ہیں۔ ان کے اعمال اسلام دشمنی ہیں، اور ایسے لوگ ’مسلمان‘ کہلانے کے قابل نہیں۔
ان سے کیسے نمٹا جائے؟
1.ریاستی، سماجی، قبائلی اور مذہبی لائحۂ عمل؛
سخت ترین ریاستی کارروائی قومی ایکشن پلان کا دوبارہ فعال ہونا۔ عسکری، انٹیلیجنس اور پولیس کا مشترکہ آپریشن فنانسنگ، پناہ گاہیں، سہولت کار، سب کا مکمل خاتمہ۔
- قبائلی جرگہ نظام کا بیدار ہونا
پختون معاشرے میں جرگہ سب سے مضبوط نظام ہے۔
قبائلی مشران کا فتویٰ، اعلان، بائیکاٹ
دہشت گردوں کو پناہ دینے والوں پر قبائلی سزائیں
- علماء کی مشترکہ کھلی تردید
تمام مکاتب فکر کا مشترکہ فتویٰ ہے کہ خودکش حملہ حرام ہیں، مسجد پر حملہ کفر اور ریاست سے لڑنا بغاوت ہے۔
- ڈجیٹل میڈیا پر بیانیہ سازی
نوجوانوں کو آن لائن برین واشنگ سے بچانا
شدت پسند گریبیج لاجک کا جواب دینا
- متاثرہ علاقوں میں تعلیم
خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کو یقینی بنائیں، کیونکہ یہ گروہ ‘جہالت‘ پر زندہ رہتے ہیں۔
- پولیس اور ایف سی کو جدید تربیت و جدید اسلحہ
- اہلِ قلم، صحافی اور دانشوروں کی ذمہ داری
بیانیے کو مضبوط بنانا، لوگوں کو اصل چہرہ دکھانا۔
پاکستان آج جس فتنہ کا شکار ہے، وہ خوارج کی جدید شکل ہے۔
جو پختون قوم، اسلام اور پاکستان، تینوں کے دشمن ہیں۔
ان سے نمٹنے کے لیے طاقت علم بیانیہ قانون قبائلی دانش وغیرہ سب کو اکٹھا استعمال کرنا ہوگا۔ سب سے اہم بات کہ جو مسلمان مسجد میں مسلمانوں کو مارے، وہ نہ مجاہد ہے، نہ مسلمان، وہ صرف خوارج کا پیروکار ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













