پاکستان کے ممتاز کرکٹر اور بین الاقوامی ایمپائر خضر حیات گزشتہ شب لاہور میں انتقال کر گئے۔ وہ کچھ عرصے سے علیل تھے، ان کی عمر 86 برس 322 دن تھی۔

خضر حیات 5 جنوری 1939 کو لاہور (پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کرکٹ کی دنیا میں نہ صرف ایک کھلاڑی کے طور پر بلکہ بعد میں ایمپائر اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدیدار کے طور پر بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔
خضر حیات نے 21 فرسٹ کلاس میچز کھیل کر پاکستان ریلوے اور پنجاب ٹیم کے لیے وکٹ کیپر اور رائٹ ہینڈ بیٹسمین کے طور پر شاندار کارکردگی دکھائی، جس دوران انہوں نے ایک سینچری، 2 نصف سینچریاں، 15 کیچز اور 3 اسٹمپ آؤٹ اپنے نام کیے۔

ایمپائرنگ کیریئر:
کرکٹ میں کھلاڑی کے طور پر کیریئر مکمل کرنے کے بعد، خضر حیات نے ایمپائرنگ کا آغاز کیا۔ انہوں نے 34 ٹیسٹ اور 57 ایک روزہ بین الاقوامی (ODIs) میچوں میں ایمپائرنگ کی، جن میں پاکستان اور عالمی سطح پر اہم میچز شامل ہیں۔
ان کا ٹیسٹ ڈیبیو میچ پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا، قذافی اسٹیڈیم لاہور میں مارچ 1980 میں ہوا اور آخری ٹیسٹ پاکستان بمقابلہ زمبابوے، شیخوپورہ اسٹیڈیم میں اکتوبر 1996 میں کھیلا گیا۔
مزید پڑھیں: رکی پونٹنگ نے بھارتی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ کی آفر کیوں ٹھکرا دی؟
1994 میں انہیں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (ICC) کے پہلے بین الاقوامی ایمپائر پینل میں شامل کیا گیا، جب ہر ٹیسٹ میچ میں ایک نیوٹرل ایمپائر مقرر کیا جانے لگا تھا۔
اہم خدمات اور لمحے:
جاوید میانداد کے 100 ویں ٹیسٹ میں ایمپائرنگ
1987، 1992 اور 1996 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں ایمپائرنگ
لیگ بی فور وکٹ (LBW) قوانین اور ایمپائرنگ کے معیار کو بہتر بنانے میں اہم کردار
شاندار فیصلوں پر عالمی سطح پر کھلاڑیوں اور ایمپائرز کی جانب سے قبل احترام رہے۔
تاریخی فیصلہ جس نے رکی پونٹنگ کی ڈیبیو سینچری نہ ہونے دی
خضر حیات نے اپنے کیریئر کے دوران بہت سے تاریخی اور یادگار لمحات کا حصہ بنے، سب سے یاد رہے والا لمحہ وہ تھا جب انہوں نے 1995 میں رکی پونٹنگ کے پہلے ٹیسٹ میچ میں ایل بی ڈبلیو (LBW) کا فیصلہ دیا جس سے پونٹنگ کی ڈیبیو سینچری نہ ہوسکی۔
مزید پڑھیں: ملتان سلطانز نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے خلاف عدالت جانے کا عندیہ دے دیا
یہ واقعہ پرتھ، آسٹریلیا میں ہوا، جب پونٹنگ نے سری لنکا کے خلاف کھیلتے ہوئے 96 رنز بنائے تھے اور سینچری سے صرف چند رنز کی دوری پر تھے۔ اس موقع پر چمندا واس کی بال پونٹنگ کے ران سے ٹکرا کر گزر رہی تھی، مگر خضر حیات نے فوراً انگلی اٹھا کر پونٹنگ کو آؤٹ دے دیا۔
بعد میں ری پلے کے دوران یہ واضح ہوا کہ بال اسٹمپ سے قریباً 15 سینٹی میٹر اوپر سے گزر رہی تھی۔ پونٹنگ نے شائقین کی زبردست تنقید کے باوجود فیصلے کا احترام کیا اور خوشدلی کے ساتھ میدان چھوڑا۔
تاہم، خضر حیات خود اس فیصلے سے بہت متاثر ہوئے اور ری پلے دیکھ کر کافی افسردہ ہوئے۔ ان کے ایمپائرنگ ساتھی پیٹر پارکر کے مطابق، خضر حیات اس وقت واضح طور پر صدمے میں تھے اور وہ دوبارہ اس ٹیسٹ کے بعد آسٹریلیا کے کسی میچ میں ایمپائرنگ نہیں کرنے گئے۔
مزید پڑھیں: کیا پاکستان کرکٹ میں عمران خان سب سے کامیاب کھلاڑی رہے؟ وسیم اکرم نے سارے لحاظ توڑ دیے
خضر حیات نے ایک بار لاہور سے گفتگو میں کہا تھا کہ یہ واقعہ بہت سال پہلے کا ہے، لیکن میں پونٹنگ کے کھیل کو آج بھی یاد کرتا ہوں۔ یہ ایک افسوسناک موقع تھا، لیکن ہر ایمپائر سے غلطی ہو سکتی ہے اور مجھے اس پر کوئی پچھتاوا نہیں۔
رکی پونٹنگ نے بعد میں اپنے کیریئر میں 13 ہزار 378 ٹیسٹ رنز بنائے، 41 سینچریاں سکور کیں اور 100 ٹیسٹ جیتے، مگر وہ ڈیبیو میچ میں خضر حیات کے فیصلے کی وجہ سے سینچری مکمل نہیں کرسکے۔
یہ واقعہ Decision Review System (DRS) کی اہمیت کو اجاگر کرنے والا تاریخی لمحہ بھی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس سے قبل کسی بھی قسم کی ٹیکنالوجی یا ری ویو کے اختیارات موجود نہیں تھے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ میں خدمات:
ریٹائرمنٹ کے بعد خضر حیات پاکستان کرکٹ بورڈ سے بطور جنرل مینیجر، ایمپائر اور میچ ریفری کے طور پر منسلک رہے، جہاں انہوں نے ایمپائرنگ کے معیار کو مضبوط کرنے اور ترقی دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
مزید پڑھیں: 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ اور عمران خان
وفات اور تعزیت:
خضر حیات 22 نومبر 2025 کو لاہور میں انتقال کر گئے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان کے انتقال پر گہرے افسوس کا اظہار کیا۔ چیئرمین محسن نقوی نے کہا کہ خضر حیات کی ایمپائرنگ کی دنیا میں گراں قدر خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا تھا کہ دنیا خضر حیات کے فیصلوں کی معترف تھی، کرکٹ ایمپائرنگ ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی اور ان کی خدمات کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔
کرکٹ بورڈ نے ان کے اہلخانہ، دوستوں اور عزیزوں کے لیے دلی ہمدردی کا اظہار کیا اور دعا کی کہ مرحوم کی روح کو ابدی سکون نصیب ہو اور خاندان کو صبر اور ہمت عطا ہو۔














