لاہور کے 22 سالہ الیکٹریکل انجینیئر فیصل فرمائش کو گمان تک نہ تھا کہ ٹک ٹاک پر موٹیویشنل ویڈیوز بنانے کا شوق ایک دن انہیں سرحد پار محبت سے دوچار کردے گا۔
اردو نیوز کے مطابق ان کا یہ سفر بنگلہ دیش میں طلبا احتجاج پر بنائی گئی ایک ویڈیو سے شروع اور زندگی بھر کے ساتھی کے انتخاب پر ختم ہوا۔
فیصل گزشتہ 3 برس سے ٹک ٹاک پر سرگرم ہیں، بنگلہ دیش میں طلبا تحریک اٹھی تو انہوں نے ایک نوجوان طالب علم ابو سعید کے کردار پر ایک ویڈیو بنائی۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں پاکستانی پرچموں کی فروخت میں اضافہ، خوبصورت ویڈیو وائرل
ویڈیو نے دیکھتے ہی دیکھتے مقبولیت حاصل کی اور تبھی کومیلا کی رہائشی عریشہ کا کمنٹ ’فرام بنگلہ دیش‘ آیا اور یوں ایک معمولی آن لائن گفتگو نے تعلق کی پہلی اینٹ رکھ دی۔
اردو نیوز سے گفتگو میں فیصل نے بتایا کہ یہ سب حادثاتی نہیں تھا۔ ’محنت اور دل کی سچائی نے راستہ خود بنا دیا۔‘
فیصل کے مطابق وہ عام حالات میں لڑکیوں سے بات چیت نہیں کرتے تھے، مگر گزشتہ برس بنگلہ دیش میں احتجاج کے دنوں میں وہ اس معاملے پر مزید معلومات چاہتے تھے۔

’میں نے عریشہ سے رابطہ کیا، ہم ابو سعید کے کردار، احتجاج کی فضا اور وہاں کے حالات پر بات کرتے۔ آہستہ آہستہ ان کی باتوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔‘
پیشہ ورانہ طور پر فیصل الیکٹریکل انجینیئر ہیں اور ساتھ ہارڈویئر کی دکان بھی چلاتے ہیں۔
پانچ بہنوں اور تین بھائیوں پر مشتمل بڑے خاندان سے تعلق رکھنے والے فیصل کے لیے یہ نیا تعلق غیر معمولی تھا۔
مزید پڑھیں: فیس بک رومانس: پاکستانی نوجوان شادی کے لیے بنگلہ دیش پہنچ گیا
’میں نے کبھی کسی لڑکی سے اتنی بات نہیں کی تھی۔ مگر عریشہ سے روز بات ہوتی، ان کی آواز کا انتظار رہتا۔‘
وقت کے ساتھ ٹک ٹاک کی گفتگو جذبات میں بدل گئی اور فیصل نے ہمت کرکے عریشہ کو پروپوز کر دیا۔
جواب میں عریشہ نے گفتگو ہی بند کر دی۔

’وہ کہتی تھیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے فرق سے یہ رشتہ ممکن نہیں، ان کا ہر جواب یہی تھا کہ ہم نکاح نہیں کر سکتے۔‘
لیکن فیصل نے ہار نہ مانی، چند دنوں بعد عریشہ نرم پڑ گئیں۔ فیصل نے ان کی والدہ سے بھی بات کی، جو جلد مان گئیں۔
تاہم عریشہ کے والد شدید مخالف تھے۔ ’انہوں نے 6 ماہ تک عریشہ سے بات تک نہیں کی، جس سے دکھی ہو کر عریشہ نے کھانا پینا تک چھوڑ دیا تھا۔‘
مزید پڑھیں: ڈھاکہ میں عاطف اسلم کی آواز کا کمال، بنگلہ دیشی سامعین کا دھمال
بنگلہ دیش کے شہر کومیلا کی رہائشی عریشہ احتجاج کے دنوں میں آنرز کے پہلے سال کی طالبہ تھیں۔
نرم مزاج ہونے کے باوجود ان کے اندر ایک ہمت تھی جس نے مشکل وقت میں انہیں مضبوط رکھا۔
اپنی کہانی سناتے ہوئے عریشہ نے بتایا کہ ان کے والد نہیں مان رہے تھے، لیکن باقی گھر والے راضی تھے۔

’بالآخر بڑی بہن نے انہیں منایا اور پھر ہمارا آن لائن نکاح ہوا۔ میں نے پاسپورٹ اور دستاویزات مکمل کیں اور 12 جون کو پاکستان آگئی۔‘
ان کے والد دبئی میں رہتے ہیں اور پاکستانیوں کے حوالے سے ان کے ذہن میں منفی تصورات تھے۔
’وہ کہتے تھے کہ پاکستان گئی تو وہ تمہیں بیچ دیں گے۔ ان کے نزدیک پاکستانیوں کا کردار اچھا نہیں تھا۔‘
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش کا پاکستان کے لیے قوانین میں نرمی کا اعلان، اب ویزا آن لائن دستیاب ہوگا
پاکستان پہنچ کر عریشہ کو خوف تھا کہ نئے ملک اور اجنبی لوگوں کے ساتھ معاملات نجانے کیسے ہوں لیکن لاہور نے ان کا دل جیت لیا۔
’یہاں کے لوگ بہت محبت کرنے والے ہیں۔ سب فیصل سے کہتے ہیں کہ عریشہ کا خیال رکھنا۔ میں شکر گزار ہوں کہ مجھے اتنے اچھے لوگ ملے۔‘
کومیلا گورنمنٹ کالج میں احتجاج کے دوران حالات سنگین تھے۔

’لڑکیوں تک پر ظلم ہوا، میں کئی کئی دن خوف کے باعث گھر سے باہر نہیں جاتی تھی۔ لیکن حسینہ واجد کے حکومت چھوڑنے کے بعد دوبارہ آزادی محسوس ہوئی۔‘
وقت کے ساتھ ساتھ اردو زبان بھی ان کے لیے آسان ہوتی چلی گئی۔
مزید پڑھیں: جنرل ساحر شمشاد کی بنگلہ دیشی آرمی چیف سے ملاقات، دفاعی تعاون میں پیشرفت پر اظہار اطمینان
’مجھے پہلے بھی اردو آتی تھی لیکن روانی نہیں تھی۔ اب یہاں گھر والوں سے روز بات کرتی ہوں تو کافی بہتر ہو گئی ہے۔‘
عریشہ جلد ہی اپنے پاکستانی شوہر فیصل کے ہمراہ بنگلہ دیش جانے کا ارادہ رکھتی ہیں تاکہ انہیں اپنے گھر والوں سے ملوا سکیں۔
ان کی خواہش ہے کہ وہ واپس بھی ایک ساتھ آئیں اور اپنی نئی زندگی کو مزید خوبصورت بنائیں۔














