کبھی کبھی زندگی ہمیں ایسے لمحوں سے روبرو کر دیتی ہے جو خواب اور حقیقت کے بیچ کی لکیر کو دھندلا دیتے ہیں۔ بھاگ دوڑ کے دنوں میں محمد عزیز کے لیے بھی ایسا ہی ایک لمحہ آیا جب وہ بمبئی کے مضافاتی علاقے کے چھوٹے سے کمرے میں بے سُدھ سو رہے تھے اور کسی کی آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرا رہی تھی: ’ارے منا ۔ ۔ ۔ انوجی آئے ہیں۔‘
محمد عزیز اسے خواب سمجھے، لیکن مسلسل پکار اور جھنجھوڑے جانے پر انہیں احساس ہوا کہ یہ کوئی خواب نہیں حقیقت تھی۔ ’انو ملک‘ 1980 کی دہائی میں بالی ووڈ کی موسیقی میں اپنی پہچان بنانے کی تگ و دو میں تھے، انہیں ایسے گلوکار کی تلاش تھی جو ’محمد رفیع‘ کی یادیں تازہ کرسکے۔
من موہن ڈیسائی کی ہدایتکاری میں فلم ’مرد‘ کے ’ٹائٹل سانگ‘کے لیےگریٹ ’محمد رفیع‘ جیسی آواز جہاں انو ملک کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا، وہیں یہ لمحات محمد عزیز کے خواب کی تعبیر بھی تھے۔ وہ فوراً اپنی چارپائی سے اتر کے ننگے پاؤں ’انو ملک‘ کے پاس دوڑے گئے۔ یہ ملاقات محمد عزیز کا بالی ووڈ میں پہلا قدم تھا۔ اور محمد عزیز وہ گلوکار ثابت ہوئے جو ہر معیار پر پورا اترتے تھے۔
محمد عزیز نے فلم ’مرد‘ کے دو گیت، ’مرد تانگے والا‘ اور ’ہم تو تمبو میں بمبو‘ گا کر بیحد شہرت پائی اور ہر بڑے موسیقار کی ترجیح بن گئے، اور اپنے روحانی استاد محمد رفیع کے جاں نشیں ثابت ہوئے۔
محمد عزیز 2 جولائی 1954 کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ موسیقی ان کے لہو میں شامل تھی، بچپن سے ہی میوزیکل پروگرامز میں گانے لگے تھے۔ پھر ہوٹلوں، شادی بیاہ کی تقریبات اور کولکتہ اسٹیج پرفارمنس نے ان کی بنیادیں مضبوط کیں۔ وہ اپنی والدہ سے دو سال کی مہلت لیکر 1984 میں ممبئی گئے تھے کہ موسیقی میں نام پیدا کروں گا، نہیں تو کوئی اور کام شروع کر دوں گا۔
محمد عزیز کی آواز میں اسٹیج گائیکی کا جوشیلا پن ہی نہیں کلاسیکی موسیقی کی نزاکت بھی شامل تھی۔ اونچے سُروں میں مہارت، دل چُھو لینے والا ایکسپریشن، اور ہر طرز کے گیتوں کو بنا دقت اور بہترین انداز میں پیش کرنا ان کا خاصا تھا۔
محمد عزیز نے صرف اردو میں ہی نہیں بلکہ ہندی، بنگالی، اڑیسی، پنجابی اور دیگر زبانوں میں بھی سُروں کے جادو سے پرستاروں کے دل جیتے۔ ان کی ورسٹائل آواز نے انہیں دنیائے موسیقی کی مقبول ترین آواز بنا دیا تھا۔
محمد عزیز کی آواز نے اپنے دور کے قریباً تمام ہیروز کو شہرت بخشی۔ دلیپ کمار، شمّی کپور، دھرمندر، جیتندر، متھن چکرورتی، امیتابھ بچن، جیکی شروف، گووندا، انیل کپور، شترُوگھن سنہا، راجیش کھنہ، ونود کھنہ، رشی کپور، متھن چکراورتی، سلمان خان اور شاہ رخ خان تک کے کرداروں کو ان کی گائیکی نے رنگ دیا۔
اگرچہ محمد عزیز متعدد فلمی ایوارڈز کے لیے نامزد ہوئے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ لتا منگیشکر، کشور کمار اور مہدی حسن کی ستائش ان کے لیے کسی بھی ایوارڈ سے بڑھ کر ہے۔ انہوں نے قریباً 3 دہائیوں تک فلمی گلوکاری اور اسٹیج شوز میں اپنے فن کا لوہا منوائے رکھا۔
محمد عزیز کے گلشن میں دو پھول کھلے، بیٹا جاذب عزیز اور بیٹی ثنا عزیز۔ ثنا عزیز موسیقی سے لگاؤ رکھتی ہیں اور معروف گائیکہ ہیں۔ والد کی خواہش کے مطابق، انہوں نے موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ محمد عزیز نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میری وراثت میری بیٹی ثنا عزیز سنبھالے گی۔
27 نومبر 2018 کو حرکت قلب بند ہوجانے سے وہ ہم سے رخصت ہو گئے، مگر ان کی آواز زندہ ہے۔ انہوں نے اپنے روحانی استاد ’محمد رفیع‘ کو فلم ’کرودھ‘ میں ایک گیت کے ذریعے خراج تحسین پیش کیا تھا:
’نہ فنکار تجھ سا تیرے بعد آیا ۔ ۔ ۔ محمد رفیع تو بہت یاد آیا۔‘
اسی تناظر میں آج ان کی برسی کے موقع پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’محمد عزیز تو بہت یاد آیا۔‘
محمد عزیز کا کہنا تھا کہ انہوں نے مختلف زبانوں میں 20 ہزار سے زائد گیت گائے جس کا وہ ثبوت بھی پیش کرسکتے ہیں۔ ان کے اردو گانوں میں سے میرے پسندیدہ چند گیت یہ ہیں:
پیار ہمارا امر رہے گا ۔۔۔ فلم: مدت
بہت جتاتے ہو چاہ ہم سے ۔۔۔ فلم: آدمی کھلونا ہے
دنیا میں کتنا غم ہے ۔۔۔ فلم: امرت
آج کل یاد کچھ اور رہتا نہیں ۔۔۔ فلم: نگینہ
متوا بھول نہ جانا ۔۔۔ فلم: کب تک چپ رہوں گی
تمہیں دل سے کیسے جدا ہم کریں گے ۔۔۔ فلم: دودھ کا قرض
کیسے کٹے دن کیسے کٹیں راتیں ۔۔۔ فلم: سورگ
آپ کے آ جانے سے ۔۔۔ فلم: خود غرض
دل تیرا کس نے توڑا ۔۔۔ فلم: دیاوان
اے مرے دوست لوٹ کے آجا ۔۔۔ فلم: سورگ
تیری بے وفائی کا شکوہ کروں تو ۔۔۔ فلم: رام اوتار
محمد عزیز کا خواب سے حقیقت تک کا ابتدائی سفر، وہ لمحہ جب ’انو ملک‘ نے انہیں تلاش کیا اور بالی ووڈ میں ان کے سنہرے گیت یاد دلاتے ہیں کہ محنت اور جذبہ ضائع نہیں جاتا۔ محمد عزیز موسیقی کا وہ ساگر ہے جس کی لہریں ہمیشہ ہمارے دلوں میں شور مچاتی رہیں گی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













