جی 20 ٹورازم اجلاس: مقبوضہ کشمیر میں نقل و حرکت بند، سیکیورٹی کے کڑے انتظامات

پیر 22 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان، چین اور دیگر عالمی رہنماؤں کی سخت مخالفت کے باوجود بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جی 20 کا ٹورازم اجلاس شروع کر دیا ہے۔ اس دوران یہاں نقل و حرکت مکمل بند ہے۔ سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے ہیں۔

ورکنگ گروپ کا اجلاس پیر سے بدھ تک وفاق کے زیر انتظام علاقے کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں ہو رہا ہے۔

2019 میں بھارت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے یہ خطے میں منعقد ہونے والا سب سے بڑا بین الاقوامی ایونٹ ہے۔ اس تقریب میں جی 20 کے رکن ممالک کے 60 سے زیادہ مندوبین شرکت کر رہے ہیں، تاہم چین، ترکیہ، سعودی عرب اور مصر نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہے۔

چین پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ کشمیر ایک متنازع خطہ ہے جس میں کسی بھی طرح کا کوئی عالمی سطح کا اجلاس نہیں ہو سکتا۔ چین دوسری ریاستوں کی سالمیت کا احترام کرتا ہے۔

کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد میں پاکستان شانہ بشانہ

واضح رہے کہ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ کشمیریوں کو رائے شماری کے ذریعے مستقبل کے فیصلے کا حق ملنا چاہیے۔ اس ایشو پر دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پڑوسی ممالک کے درمیان 2 جنگیں ہو چکی ہیں۔

اپریل میں پاکستان جو جی 20 کا رکن نہیں ہے، نے کشمیر میں اجلاس منعقد کرنے کے بھارت کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے غیر ذمہ دارانہ اقدام قرار دیا تھا۔

ادھر بھارت دعویٰ کر رہا ہے کہ جموں و کشمیر اور لداخ بھارت کے اٹوٹ انگ ہیں اور یہ ناقابل تقسیم حصے ہیں اس لیے ان علاقوں میں جی 20 کی تقریبات اور میٹنگز کا انعقاد فطری بات ہے۔

2019 میں بھارتیا جنتا پارٹی کی زیرقیادت بھارتی حکومت نے مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے انہیں بھارت کے زیر انتظام علاقے قرار دیا تھا۔

لداخ بھارت اور چین کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے ساتھ ایک متنازع سرحدی علاقہ ہے اور دونوں ممالک اس کے کچھ حصوں کا دعویٰ کرتے ہیں۔

ادھر بھارتی حکومت اور میڈیا کشمیر میں ہونے والے جی 20 ایونٹ کو ‘تاریخی’ قراردے رہے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ اجلاس اس خطے کی ثقافت کو ظاہر کرنے کا ایک بہترین موقع ہے۔ اس تقریب سے پہلے بھارت نے کشمیر میں کئی سیکیورٹی مشقیں کیں۔

مقبوضہ کشمیر میں 1989 سے لے کر آج تک شورش چلی آ رہی ہے

واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 1989 سے لے کر آج تک بھارت کے خلاف مسلح شورش چلی آ رہی ہے- بھارت پاکستان پرالزام لگاتا آرہا ہے کہ وہ یہاں مجاہدین کی پشت پناہی کرکے بدامنی کو ہوا دے رہا ہے جبکہ پاکستان نے بھارت کے ان الزامات کو ہمیشہ یکسر مسترد کیاہے، ادھر کشمیری عوام یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی یہ تحریک خالصتاً اپنی تحریک ہے۔

کئی دہائیوں سے چلے آ رہے مسئلہ کشمیر کے بارے میں بھارت کے خود حزب اختلاف کے سیاست دان، انسانی حقوق کی تنظیمیں اورمقامی لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارت کی انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور حالیہ عرصے میں یہاں بھارتی سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اس وقت مقبوضہ کشمیر کے گرمائی دارلحکومت سری نگر میں اطلاعات کے مطابق، ایلیٹ سیکیورٹی فورسزبشمول میرین کمانڈوز، نیشنل سیکیورٹی گارڈز، بارڈر سیکیورٹی فورس اور پولیس فورسسزکو کشمیر میں تعینات کیا گیا ہے۔

جی 20 ٹورازم گروپ کے اجلاس کے مقام سری نگر کی ڈل جھیل اور شیر کشمیر انٹرنیشنل کنونشن سینٹرکے ارد گرد سیکیورٹی کے انتظامات انتہائی کڑے رکھے گئے ہیں۔

ان راستوں کے آس پاس کے تمام اسکول جو جی 20 کے مندوبین استعمال کریں گے بند کر دیے گئے ہیں۔ فوجی بینکرز، جو کشمیر میں عام نظر آتے ہیں انہیں نظر سے چھپانے کے لیے جی 20 بینرز سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔

سیکیورٹی کے نام پر لوگوں کی زندگی مشکل بنائی جا رہی ہے: محبوبہ مفتی

جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سمیت مقامی اپوزیشن لیڈروں نے سیکیورٹی کے وسیع تر انتظامات پر تنقید کی ہے اور وفاقی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ عام لوگوں کی زندگی کو مزید مشکل بنا رہی ہے۔

ایک پریس کانفرنس میں محبوبہ مفتی نے جی 20 سے قبل کشمیر میں پابندیوں کا موازنہ امریکا کی بدنام زمانہ فوجی جیل گوانتاناموبے سے کیا۔ جموں و کشمیر انتظامیہ نے ابھی تک اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

ایک 53 سالہ تاجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ سیکیورٹی انتظامات کی وجہ سے گزشتہ 10 دنوں میں مقامی لوگوں کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ رہائشی علاقوں میں بہت زیادہ چیکنگ اور تلاشی کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں تمام اسکول اور کالج بند ہیں۔

انہوں نے مرکزی حکومت کے اس دعوے پر بھی سوال اٹھایا کہ اس اجلاس سے مقامی معیشت کو فروغ ملے گا، ان کا کہنا تھا کہ ایسا ممکن نہیں جب تک علاقے میں پائیدار امن کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا۔

جی 20 ٹورازم گروپ کے اجلاس پر عالمی رہنماؤں کی تنقید

مقبوضہ کشمیر میں جی 20 ٹورازم گروپ کے اجلاس پر عالمی سطح پر بھی شدید تنقید کی گئی ہے۔ پچھلے ہفتے بھارت کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے اقلیتی امورفرنینڈ ڈی ورینس نے ٹوئٹر پر اپنا ایک بیان جاری کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں جی 20 ٹورازم اجلاس کا انعقاد بھارت کی طرف سے اصل چہرے پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سری نگر میں جی 20 ٹورازم گروپ کا اجلاس ایک ایسے وقت منعقد ہو رہا ہے جب یہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، سیاسی ظلم و ستم اور غیر قانونی گرفتاریاں بڑھ رہی ہیں۔

واضح رہے کہ جی 20 میں دنیا کے 19 امیر ترین ممالک اور یورپی یونین شامل ہیں۔ اس وقت بھارت کے پاس جی 20 ممالک کی صدارت ہے- یہ صدارت ہر سال کسی دوسرے ملک کو منتقل کی جاتی ہے۔ بھارت ستمبر میں دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس کی بطور صدر میزبانی کرے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp