بابر اعظم کو ‘کنگ’ کیوں کہا جاتا ہے؟

منگل 2 دسمبر 2025
author image

آصف محمود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کبھی آپ نے سوچا  ہے کہ  بابر اعظم کو ان کے مداح ‘ کنگ’ کیوں کہتے ہیں ؟ آپ کہیں گے کہ اس میں سوچنےوالی کیا چیز ہے، سادہ سی بات ہے کہ  ان کے مداح محبت میں انہیں ‘کنگ’ کہتے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ ان کے مداح محبت میں انہیں وزیر اعظم کیوں نہیں کہتے، کنگ  ہی کیوں کہتے ہیں؟

آپ غور فرمائیے، اپنے اپنے قائد محترم کو وزیر اعظم بنانے کی آرزو میں لوگوں نے اس معاشرے میں زہر بھر دیا ہے۔ تعلقات اور خونی رشتے تک داؤ پر لگ چکے ہیں۔ اسی مقابلے کی وجہ سے گالم گلوچ اور مغلظات کا ایک طوفان برپا ہے۔ شادیوں سے جنازوں تک جہاں جائیں لوگوں کے پاس سیاست کے سوا کوئی موضوع ہی نہیں ہوتا۔ سب کو سیاست لاحق ہو چکی ہے۔ اب اس سیاست کا نکتہ عروج وزارت عظمیٰ ہے۔ سب کچھ اسی منصب کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے۔  لیکن اس سیاست کے لیے ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو تیار یہ معاشرہ جب کسی کھلاڑی پر محبت نچھاور کرتا ہے تو وہ اسے کرکٹ کا وزیر اعظم نہیں کہتا، وہ اسے کرکٹ کا کنگ کہتا ہے۔ سوال وہی ہے کہ کیوں؟

لمبی چوڑی بحث میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں۔  اس کا جواب بہت سادہ سا ہے۔ اور جواب یہ ہے کہ یہ معاشرہ اپنی روح  اور اپنے مزاج میں جمہوری ہے ہی نہیں۔ دعوے ، وعدے ، خطبے اور بھاشن اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارا جمہوریت سے سرے سے کوئی لینا دینا ہی نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: دیوبند کا سب سے بڑا محسن : محمد علی جناح

لوگوں کو آج بھی  بادشاہ سلامت پسند ہیں۔ لوگ شاہوں، شاہ زادوں، مہاراجوں، راجوں کی کہانیوں میں جیتے ہیں۔ یہ کسی ادارہ سازی کے چکر میں پڑنے کا تکلف نہیں کرتے، یہ شارٹ کٹ میں کسی ایسے مسیحا کی تلاش میں رہتے ہیں جو آئے اور راتوں رات ملک کی تقدیر بدل دے۔

لوگوں کو برصغیر کے راجوں مہاراجووں کی کہانیاں اچھی لگتی ہیں، جن کے آگے جھک کر یہ ان کے اقبال بلند ہونے کی دعائیں دیتے رہیں۔ یہ مافوق الفطرت لوگوں کی مجاوری کو اعزاز سمجھتے ہیں۔ یہ شہری نہیں ہیں، یہ مزاج میں رعایا ہیں اور ان کو ہر دم ایک جہاں پناہ کی تلاش رہتی ہے۔

چنانچہ گھرں میں بیٹی پر پیار آ جائے تو اسے شہزادی کہا جاتا ہے، بیٹوں کو یہ شہزادہ کہتے پھرتے ہیں اور شائستہ خاوند وہ ہے جو بیوی کو ملکہ بنا کر رکھے۔  دوست کا بھی کوئی کام اچھا لگے تو اسے کہا جاتا ہے: شہزادہ لگیا ہویاں۔ ( شہزادہ لگ رہے ہو)۔

وزیر، گورنر، وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم، جو عہدے ہم دیکھ رہے ہیں، جو ہمارے فیصلہ ساز ہیں، وہ ہماری نظروں میں نہیں جچتےا ور جن بادشاہوں کی ہم نے صرف کہانیاں سنی ہیں ان بادشاہوں پر ہم آج بھی صدقے واری جاتے ہیں۔ کیونکہ ہم اس کی گائے بننا فخر سمجھتے ہیں جس کے پاس ڈنڈا ہوتا ہے۔ بادشاہتیں ختم ہو گئیں لیکن ان کے کروفر اور ڈنڈے کے ہم اب بھی قتیل ہیں۔

ہمارا مزاج ہے کہ ہم اہنے جیسوں کی ٹانگیں کھینچتے ہیں۔ وزیر اعظم بھلے ہمارے جیسا نہ ہو لیکن ہوتا تو کسی حد تک  ہمارے ووٹ کا محتاج ہی ہے اس لیے اس کی کیا اوقات کہ اس کے ساتھ کوئی رومان وابستہ کیا جائے۔ ویسے بھی ہر وزیر اعظم نے 2،4 سال بعد جانا تو اڈیالہ ہی ہوتا ہے تو اس کی کیا حیثیت کہ اپنے کرکٹ ہیرو کو وزیر اعظم کہیں۔ ہم تو اسے بادشاہ کہیں گے، جو ہر قانون سے بالاتر ہوتا ہے۔ جس کی نگاہِ ناز ہی آئین ہوتی ہے اور جو چاہے تو کفن میں لپیٹ دے چاہے تو خلعت عطا کر دے۔ ہم اس اندھی طاقت کے مجاور ہیں اور اسی کو گلوریفائی کرتے ہیں۔

وزیر اعظم تو رہا ایک طرف ہم بابر اعظم کو صدر بھی نہیں کہتے۔ حالانکہ صدر کو تو اب تاحیات استثنیٰ بھی مل گیا ہے اور وہ پوری ریاست کا سربراہ بھی ہے اور افواج پاکستان کا سپریم کمانڈر بھی۔ اس ( بظاہر) غیر معمولی طاقت کے باوجود صدر ہمارے معیار سے کم کی چیز ہے کیونکہ ایک نہ ایک دن تو اسے سابق صدر ہو جانا ہوتا ہے۔

علاقے میں کوئی شریف ایس ایچ او آ جائے تو ہم اسے ’زنانہ ایڈیشن‘ کہتے ہیں اور اگر کوئی ایسا آ جائے جس سے پورے علاقے میں کسی شریف آدمی کی عزت نفس محفوظ نہ ہو تو ہم اسے ’دھرنٹ‘ یعنی تگڑا آدمی کہتے ہیں۔

قانون کو ہم ’قنون شنون‘ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے، ٹریفک کے قوانین لاگو ہونے لگیں تو ہم دہائی مچا دیتے ہیں۔ ہمارا آئیڈیل وہی ہے جو کسی ضابطے کسی قانون کا محتاج نہ ہو۔ الف سے ی تک ہماری فکری ساخت ایسی ہے کہ ہم طاقت سے مرعوب ہوتے ہیں اور طاقت کی گلوریفائی کرتے ہیں، اور بادشاہ چونکہ انسانی طاقت کا نکتہ عروج ہے اس لیے ہمیں کسی پر پیار آتا ہے تو ہم اسے کنگ بنا دیتے ہیں۔

مزید پڑھیے: آزادی رائے کو بھونکنے دو

یہ جو بیچ میں جمہوریت کھیلی جاتی ہے اس میں جمہوری اقدار کی بجائے طاقت کارفرما ہے۔ الیکشن وہی لڑ سکتا ہے جس کے پاس اس حلقے کے دائرے میں طاقت ہو اور جتنی بے پناہ ہو اس کے جیتنے کے امکانات بھی اتنے ہی بے پناہ ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی ان ہی مقامی طاقت وروں کا ایک کلب ہیں۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔

سیاسی جماعتوں کا جمہوریت سے وہی تعلق ہے جو مودی جی کا مرزا غالب کی شاعری سے ہے۔ سیاسی جماعتوں میں کہاں جمہوریت ہے؟ سیاسی جماعتیں خود کہاں ہیں۔

 دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے ایک آدھ مختصر سی جماعت کو چھوڑ کر کیا آپ نے کسی شہر میں کسی جماعت کا کوئی دفتر دیکھا ہے جہاں لوگ جمع ہوتے ہوں کہ یہ ہماری سیاسی جماعت کا دفتر ہے اور یہاں بیٹھ کر ہم اپنی رائے دیں گے۔ ان سیاسی جماعتوں کو تو مقامی حکومتیں بھی اچھی نہیں لگتیں کیونکہ ا س سے اقتدار عام آدمی تک جانے کا خطرہ ہے یعنی اپنی بادشاہت کی شان کم ہونے کا ڈر ہے۔

نہ گھروں میں جمہوریت ہے، نہ دفاتر میں جمہوریت ہے۔ نہ ہمارا جمہوری اقدار سے کوئی واسطہ ہے، اختلاف پر لوگ ذاتی دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ جمہوریت یہاں کلٹ ہے یا موروثیت کی مجاوری ہے۔

کبھی آپ نے اس پر غور کیا کہ یہ جو پولیس افسران نصف درجن کیمرا مینوں کے ساتھ کھلی کچہری کی فنکاریاں شوٹ کرواتے ہیں یہ کیا ہے؟ یہ بادشاہوں کی رسم ہے۔ بادشاہ جھروکوں سے رعایا کو دیدار کراتے تھے، یہ افسر شاہی کھلی کچہریوں میں کبھی کبار رعایا کو دیدار کرا دیتی ہے۔ دفتروں میں تو ان سے ملنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا  قدیم زمانوں میں دلی کے سلطانوں سے ملنا مشکل ہوتا ہو گا۔

مزید پڑھیں:۔ دیوبند کا سب سے بڑا محسن : محمد علی جناح

سماجی رویے بہت اہم ہوتے ہیں۔ ان کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ کسی معاشرے کی فکری ساخت کیا ہے۔ ہمارے ہاں سماجیات کسی کا موضوع نہیں رہا ورنہ یہ ایک اہم اور دلچسپ کیس سٹڈی ہوتی کہ لوگ بابر اعظم کو کنگ کیوں کہتے ہیں وہ انہیں وزیر اعظم یا صدر کیوں نہی کہتے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp