خضدار کے نواحی علاقے سنی تیغ میں بچوں نے اپنی محنت سے ایک جھونپڑی کو اسکول میں بدل دیا ہے جہاں مقامی خاتون گزشتہ 3 برس سے بغیر کسی معاوضے کے 100 کے قریب بچوں کو تعلیم دے رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کتاب ہر ہاتھ میں، بلوچستان حکومت کا ’کتاب گاڑیوں‘ کا منفرد منصوبہ
یہ علاقہ شہر سے تقریباً 5 کلو میٹر دور ہے یہاں زیر تعلیم بچوں میں زیادہ تعداد بچیوں کی ہے جو میلوں دور سے پیدل وہاں پہنچتی ہیں۔
علاقے کی رہائشی رضاکار سلمیٰ بتاتی ہیں کہ وہ اپنے شوہر کی محنت مزدوری اور اپنی کشیدہ کاری سے ہونے والی آمدنی کے ذریعے بچوں کے لیے کتابیں اور دیگر سامان خریدتی ہیں اس نیکی کے کام میں محلے کے لوگ بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔
جھونپڑی اسکول پہاڑیوں کے درمیان ایک جھیل کے قریب واقع ہے اور قومی شاہراہ سے صرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بڑی آبادی یہاں رہتی ہے تاہم اس اسکول کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ نہ چھت، نہ پانی، نہ بجلی، نہ چٹائیاں، نہ فرنیچر ہے۔
مزید پڑھیے: ملک کے پسماندہ ترین علاقوں کی فہرست جاری، بلوچستان کے کتنے اضلاع شامل ہیں؟
بچے ناہموار اور پتھریلی زمین پر بیٹھ کر پڑھتے ہیں جگہ کم ہونے کی وجہ سے اکثر کھلے آسمان تلے سخت سردی اور شدید گرمی برداشت کرتے ہیں۔
اس جھونپڑی اسکول میں نہ کلاس کا کوئی ڈھانچہ ہے اور نہ عمر کا فرق سارے بچے ایک ساتھ بیٹھتے ہیں اور ایک ہی خاتون ٹیچر انہیں باری باری تمام مضامین پڑھاتی ہیں۔
اسکول میں وائٹ بورڈ تک موجود نہیں، بنیادی مضامین اردو، انگریزی کے حروف تہجی اور گنتی ایک مستقل بینر پر لکھے گئے ہیں جو کبھی مٹایا نہیں جا سکتا اور اسی کو ہی بچے وائٹ بورڈ سمجھ کر پڑھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: بلوچستان خشک سالی کی لپیٹ میں، بارشوں میں شدید کمی کے بعد قابل کاشت رقبہ مزید سُکڑ گیا
بچوں کو سہولتوں کی کمی سے تو کوئی خاص گلہ نہیں مگر ان کا اصل خوف یہ ہے کہ غیر رجسٹرڈ اسکول ہونے کی وجہ سے انہیں سرٹیفکیٹ نہیں ملے گا اور وہ آگے کی تعلیم سے محروم رہ جائیں گے۔ دیکھیے عامر باجوئی کی یہ ویڈیو رپورٹ۔












