دنیا بھر میں کورونا عالمی وبا کے پیش نظر سنہ 2020 کے لاک ڈاؤن کے دوران عالمی شپنگ تقریباً رک گئی تھی اور سمندر میں انسانی شور پہلی بار نمایاں طور پر کم ہوگیا تھا۔ اس غیر معمولی خاموشی نے سائنس دانوں کو یہ سننے کا موقع دیا کہ سمندر دراصل کیسا لگتا ہے جب اس میں صرف قدرتی آوازیں موجود ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وبا کے باعث دنیا میں اوسط عمر کتنی گھٹ گئی؟
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اس موقعے پر مچھلیوں کی کلکاریاں، جھینگوں کی چہلیں اور مختلف جانداروں کا ’قدرتی آرکسٹرا‘ سمندر کی دنیا میں ایک جشن کی سی کیفیت ظاہر کرتا تھا۔ 
میرین بایولوجسٹ اسٹیو سمپسن کے مطابق معمول کے دنوں میں سمندروں میں انسانوں کے پیدا کردہ شور، کارگو شپ، تیز رفتار کشتیوں اور صنعتی سرگرمیوں نے سمندری حیات کی بنیادی حرکات جیسے بات چیت، افزائش اور خوراک تلاش کرنے کے عمل میں شدید خلل ڈالا ہوا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے سائنس دان سنہ 2010 سے ’خاموش سمندر‘ کا تجربہ کرنا چاہتے تھے مگر عالمی سطح پر ایسا کرنا ناممکن تھا۔ کورونا وبا نے یہ موقع خود ہی فراہم کر دیا۔
’قدرت کا گلوبل ایکسپیریمنٹ‘
کوویڈ 19 عارضے کے باعث لاک ڈاؤن کے دوران عالمی میرین ٹریفک میں 70 فیصد تک کمی ہوئی اور 6 فیصد تک شپنگ شور کم ہوا جسے ماہرین نے ’قدرت کا گلوبل ایکسپیریمنٹ‘ قرار دیا۔
دنیا بھر میں پہلے سے نصب 200 سے زائد ہائیڈروفونز نے اس دوران سمندری آوازوں میں آنے والی تبدیلیوں کا ریکارڈ رکھا۔ نیوزی لینڈ میں تو محض 12 گھنٹے میں سمندری شور ایک تہائی رہ گیا جس سے ڈولفن اور مچھلیوں کے ایک دوسرے سے رابطے کا دورانیہ 65 فیصد تک بڑھ گیا۔
مزید پڑھیے: کورونا کا خدشہ: چمگادڑ پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں، نئی تحقیق
آواز سمندری دنیا کی بنیادی زبان ہے۔ اندازاً 20 ہزار میں سے 2 تہائی مچھلیاں آوازیں پیدا کرتی ہیں جبکہ وہیلز ہزاروں کلومیٹر دور تک گفتگو کر سکتی ہیں۔ مگر بڑھتا ہوا انسانی شوربشمول جہاز رانی، سونار، ڈرلنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی قدرتی ہنگامہ خیزی سمندری زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔
کچھ تحقیقی رپورٹس کے مطابق شور وہیلز اور مچھلیوں میں تناؤ اور کم افزائش حتیٰ کہ ساحل پر پھنسنے تک کی وجوہات میں شامل ہے۔
سنہ 2020 کے ڈیٹا نے واضح کیا کہ محض کشتیوں کی تعداد میں معمولی کمی سے بھی سمندری شور نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: کراچی میں پھیلنے والی وبا کورونا یا کچھ اور؟
اسی تحقیق کی بنیاد پر سمندر کی بحالی کے لیے ایک نئی تکنیک بھی سامنے آئی کہ تباہ شدہ ریفز میں ’صحت مند ریف‘ کی آوازیں بجا کر مچھلیوں کو واپس لانا جسے سائنس دان مذاقاً فالس ایڈورٹائزنگ‘ کہتے ہیں۔
ان تجربات کے تسلسل میں سنہ 2023 میں پہلا ورلڈ اوشن پاسِو اکوسٹکس مانیٹرنگ ڈے منایا گیا جس میں دنیا بھر سے ماہرین نے پانی کے اندر ریکارڈ کیے گئے صوتی مناظر شیئر کیے۔
یہ بھی پڑھیے: کورونا وائرس ممکنہ طور پر لیب سے پھیلا، امریکی کانگریس کمیٹی کا انکشاف
سائنس دانوں نے اسے سمندر کے ایک پوشیدہ جہان میں جھانکنے کا ’جادوئی لمحہ‘ قرار دیا۔













