ایک کروڑ سے زائد لوگ ناکام نہیں، ہار مان چکے ہیں؟

جمعرات 18 دسمبر 2025
author image

سیدہ سفینہ ملک

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے جسے ہم روز دیکھتے ہیں مگر پہچانتے نہیں۔ یہ لوگ صبح وقت پر اٹھتے ہیں، دفتر جاتے ہیں، ذمہ داریاں نبھاتے ہیں، مسکراتے بھی ہیں، مگر اندر سے جانتے ہیں کہ اب وہ پہلے جیسے نہیں رہے۔ یہ ناکام لوگ نہیں ہیں، مگر ہار مان چکے ہیں۔ یا شاید یوں کہنا زیادہ درست ہو کہ وہ خود کو مزید ٹوٹنے سے بچا رہے ہیں۔

پاکستان ایک متنوع سماجی ڈھانچے والا ملک ہے، جہاں مختلف اقتصادی طبقات اپنی اپنی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ماضی میں کئی حکومتی اور اقتصادی تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں جو ’مڈل کلاس‘ کہلاتا ہے، اس کا حجم مختلف اندازوں میں بیان ہوا ہے۔ کچھ سرویز کے مطابق تقریباً 15 سے 20 فیصد آبادی کو مڈل کلاس قرار دیا جا رہا ہے، خاص طور پر شہری علاقوں میں جہاں روزگار اور خدمات کی دستیابی زیادہ ہے۔

اس کے مقابلے میں، عالمی بینک کے جدید غربت کے پیمانے کے مطابق بڑے حصے (تقریباً 44.7 فیصد) آبادی اب بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، یعنی بڑے پیمانے پر لوئر مڈل یا غریب طبقے میں آتی ہے۔ حتیٰ کہ کچھ مطالعے یہ بھی بتاتے ہیں کہ متوسط طبقہ کا حقیقی حجم 30 40 فیصد کے قریب ہو سکتا ہے۔ اگر تمام معیار تعلیم، پیشے، آمدن اور سماجی حیثیت کو یکجا کر کے دیکھا جائے۔

اسی سماجی پس منظر میں وہ لوگ بھی ہیں جو صبح وقت پر اٹھتے ہیں، ذمہ داریاں نبھاتے ہیں، مسکراتے بھی ہیں مگر اندر سے جانتے ہیں کہ وہ اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ یہ لوگ نہ تو ناکام ہیں اور نہ ہی ہار ماننے والے، مگر وہ ایک خاموش تھکن کا شکار ہیں جو اندر سے ٹوٹ رہا ہے۔

یہ ایک خاموش تھکن کی کہانی ہے۔ ایسی تھکن جو جسم میں نہیں بلکہ ذہن اور دل میں بس جاتی ہے۔ ایسی تھکن جس کے لیے چھٹی نہیں ملتی، جس کا کوئی میڈیکل سرٹیفیکیٹ نہیں بنتا، اور جسے اکثر لوگ سستی، ناشکری یا کمزوری سمجھ لیتے ہیں۔

ناکامی اور ہار ماننے میں فرق

ہماری سماجی سوچ میں ناکامی اور ہار ماننا ایک ہی معنی رکھتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں یہ 2 مختلف چیزیں ہیں۔ ناکامی اس وقت ہوتی ہے جب کسی کو کچھ حاصل ہی نہ ہو۔ لیکن یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تعلیم حاصل کی، نوکری پائی، خاندان کی ذمہ داریاں سنبھالیں، اور سماج کے معیار کے مطابق ’کچھ بن‘ بھی گئے۔ انہیں سب کچھ ملا، سوائے اپنے آپ کے۔

ریسرچ بتاتی ہے کہ کامیابی کے روایتی پیمانے جیسے اچھی نوکری، مستحکم آمدن، یا سماجی حیثیت ذہنی اطمینان کی ضمانت نہیں ہوتے۔ عالمی سطح پر کی گئی کئی نفسیاتی تحقیقات کے مطابق، مڈل کیریئر پروفیشنلز میں ذہنی تھکن (Burnout) اور جذباتی لاتعلقی (Emotional Detachment) کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے، خاص طور پر ان معاشروں میں جہاں جذبات کے اظہار کو کمزوری سمجھا جاتا ہے۔

خاموش طبقہ کیوں خاموش ہے؟

پاکستان جیسے معاشرے میں خوش نظر آنا ایک فرض بن چکا ہے۔ یہاں مرد ہو یا عورت، دونوں پر الگ الگ مگر سخت دباؤ موجود ہے۔ مرد سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مضبوط رہے، شکوہ نہ کرے، اور حالات جیسے بھی ہوں، خاندان کو سنبھالے۔ عورت سے کہا جاتا ہے کہ وہ ایڈجسٹ کرے، شکر گزار رہے، اور اپنی تھکن کو “فطری” سمجھ کر نظرانداز کر دے۔

اسی دباؤ کا نتیجہ ہے کہ لوگ شور مچانا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ اپنی بات کہنا چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ کوئی سنے گا ہی نہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، جنوبی ایشیا میں ذہنی صحت کے مسائل رکھنے والے تقریباً 70 فیصد افراد کبھی پروفیشنل مدد حاصل نہیں کرتے، صرف اس خوف سے کہ لوگ کیا کہیں گے۔

دوہری زندگی کا بوجھ

کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ بظاہر خوش بھی ہیں اور اندر سے اداس بھی؟ کہ آپ ہنس رہے ہیں مگر اندر کچھ ٹوٹا ہوا ہے؟ اس کیفیت کو ماہرین نفسیات “High-Functioning Distress” کہتے ہیں۔ یعنی انسان بظاہر سب کچھ ٹھیک کر رہا ہوتا ہے، مگر اندر سے شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا ہے۔

یہ دوہری زندگی سب سے زیادہ تھکا دیتی ہے۔ دن بھر ایک کردار نبھانا، اور رات کو بستر پر لیٹ کر سوچنا کہ کل پھر یہی سب دہرانا ہے۔ یہی وہ لمحے ہوتے ہیں جہاں انسان ہار ماننے کے قریب آتا ہے۔ نہ اس لیے کہ وہ کمزور ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ بہت دیر سے مضبوط بنا ہوا ہے۔

خواب کہاں گئے؟

اکثر لوگ کہتے ہیں: ’ہم نے خواب چھوڑے نہیں تھے، ہم نے انہیں مؤخر کیا تھا‘۔ پہلے کہا جاتا ہے: ابھی نہیں، پہلے نوکری۔ پھر کہا جاتا ہے: ابھی نہیں، پہلے بچوں کی ذمہ داری۔ پھر کہا جاتا ہے: ابھی نہیں، حالات ٹھیک نہیں۔ اور پھر ایک دن وقت بغیر پوچھے گزر جاتا ہے۔

ریسرچ کے مطابق، جو لوگ اپنی تخلیقی خواہشات اور ذاتی خوابوں کو طویل عرصے تک دبائے رکھتے ہیں، ان میں ڈپریشن اور اینگزائٹی کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ خواب صرف بڑی کامیابیوں کا نام نہیں ہوتے، بعض اوقات وہ صرف خود کو زندہ محسوس کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔

یہ سستی نہیں، ذہنی تھکن ہے

ہمارے ہاں تھکن کو اکثر سستی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ دل نہیں لگ رہا، تو فوراً کہا جاتا ہے: ’حوصلہ کرو‘، ’سب کے ساتھ ہوتا ہے‘، یا ’اللہ کا شکر کرو، تم سے بدتر لوگ بھی ہیں‘۔

حالانکہ میڈیکل سائنس واضح طور پر کہتی ہے کہ ذہنی تھکن ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے Burnout کو ایک occupational phenomenon تسلیم کیا ہے، جس کی علامات میں مستقل تھکن، کام سے لاتعلقی، اور اپنی صلاحیتوں پر شک شامل ہیں۔

ہار ماننا یا خود کو بچانا؟

کچھ لوگ ہار اس لیے نہیں مانتے کہ وہ ہارنا چاہتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ وہ مزید ٹوٹ نہیں سکتے۔ یہ ایک اہم فرق ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔ ہر رک جانا شکست نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی رک جانا خود کو بچانے کا واحد راستہ ہوتا ہے۔

نفسیات میں Self-Preservation ایک بنیادی انسانی جبلت ہے۔ اگر کوئی انسان کسی صورتحال میں مسلسل ذہنی نقصان اٹھا رہا ہو، تو وہاں سے پیچھے ہٹنا کمزوری نہیں بلکہ دانشمندی ہو سکتی ہے۔

ہمیں کیا سیکھنے کی ضرورت ہے؟

ہمیں ایک ایسے معاشرے کی ضرورت ہے جہاں یہ سوال عام ہو: ’کیا آپ واقعی ٹھیک ہیں؟‘ اور اس سوال کا سچا جواب دینے پر کسی کو جج نہ کیا جائے۔ ہمیں یہ ماننے کی ضرورت ہے کہ ہر انسان کی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے، اور اس حد تک پہنچ جانا ناکامی نہیں۔

دفاتر میں، تعلیمی اداروں میں، اور گھروں میں ذہنی صحت پر بات کرنا ایک عیاشی نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ ریسرچ بتاتی ہے کہ جن اداروں میں ایمپلائز کی ذہنی صحت کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے، وہاں نہ صرف پروڈکٹیوٹی بہتر ہوتی ہے بلکہ لوگ زیادہ دیر تک کام سے جڑے رہتے ہیں۔

اگر آپ خود کو ان لفظوں میں پاتے ہیں

اگر یہ تحریر پڑھتے ہوئے آپ کو لگ رہا ہے کہ یہ الفاظ آپ کے لیے ہیں، تو یہ محض اتفاق نہیں۔ آپ اکیلے نہیں ہیں۔ آپ غلط نہیں ہیں۔ اگر آپ تھک چکے ہیں تو رک جانا بھی زندگی کا حصہ ہے۔ اگر آپ کے خواب مر گئے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ بھی مر گئے ہیں۔

آپ ابھی بھی یہاں ہیں۔ سانس لے رہے ہیں۔ اور بعض دنوں میں، یہی کافی ہوتا ہے۔

یہ تحریر آپ کو بدلنے کے لیے نہیں تھی۔ یہ صرف یہ کہنے کے لیے تھی کہ آپ جیسے لوگ موجود ہیں، اور اگر آپ نے ہار مان لی ہے تو بھی آپ ناکام نہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp