ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے خاتون جج کو دھمکانے کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا، ٹرائل کورٹ طلبی حکم کے خلاف سابق وزیر اعظم عمران خان کی اپیل بھی خارج کر دی گئی۔
ایڈشنل سیشن جج طاہر عباس سپرا نے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ کا عمران خان کو سمن کرنے کا نوٹس غیر قانونی نہیں ہے، اگر ضرورت ہو تو عمران خان اپنا اعتراض ٹرائل کورٹ کے سامنے بھی رکھ سکتے ہیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عمران خان نے چالان رپورٹ کے کالم نمبر 2 کو چیلنج نہیں کیا، ٹرائل کورٹ میں طلبی نوٹس کے وقت تمام ثبوتوں کا جائزہ نہیں لیا جاتا، جرم ہے یا نہیں ، ٹرائل کورٹ کی جانب سے تفصیلی جائزے کے بعد اس کا تعین ہو گا۔
یاد رہے عمران خان نے ٹرائل کورٹ کے یکم اکتوبر کے حکم کو چیلنج کر رکھا تھا، کیس میں چالان جمع ہونے کے بعد ٹرائل کورٹ نے عمران خان کو سمن نوٹس جاری کیا۔ جسکو سابق وزیر اعظم عمران نے سیشن کورٹ میں چیلنج کردیا۔
خاتون جج کو دھمکی کا مقدمہ ہے کیا؟
چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان نے 20 اگست 2022 کو ایف نائن پارک اسلام آباد میں احتجاجی جلسے سے خطاب کے دوران شہباز گل پر مبینہ تشدد کیخلاف آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد پر کیس کرنے کا اعلان کیا تھا۔
خطاب کے دوران ہی عمران خان نے شہباز گل کا ریمانڈ دینے والی خاتون مجسٹریٹ زیبا چوہدری کو نام لے کر انہیں بھی دھمکی دی تھی۔
عمران خان کا کہنا تھا ’آئی جی، ڈی آئی جی اسلام آباد ہم تم کو نہیں چھوڑیں گے، تم پر کیس کریں گے۔ مجسٹریٹ زیبا چوہدری آپ کو بھی ہم نے نہیں چھوڑنا، کیس کرنا ہے تم پر بھی، مجسٹریٹ کو پتا تھا کہ شہباز پر تشدد ہوا پھر بھی ریمانڈ دے دیا‘۔
مذکورہ بیان کے بعد پیمرا نے 21 اگست 2022 کو عمران خان کا خطاب لائیو دکھانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ 6 صفحات پر مشتمل اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ عمران خان کی براہ راست تقاریر سے نقص امن پیدا ہونے کا خدشہ ہے، ٹی وی چینل ریکارڈڈ تقریر چلا سکتے ہیں۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان اپنی تقریروں میں اداروں پر مسلسل بے بنیاد الزام تراشی کر رہے ہیں۔ اداروں اور افسران کے خلاف بیانات آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہیں۔ اعلامیے میں عمران خان کے ایف نائن پارک میں خطاب کا حوالہ بھی شامل تھا۔