چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کو کارروائی سے روکنے کا عندیہ دے دیا۔
سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس عمر عطا بندیالنے کہا کہ آج کی سماعت کا مختصر فیصلہ بھی جاری کریں گے اور ساتھ میں عبوری حکمنامہ بھی جاری کریں گے۔
سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے میڈیا کے دوستوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے شناسا چہرے نظر آ رہے ہیں۔
سماعت کا آغاز کچھ گرما گرمی کے ماحول میں ہوا جب اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو یہ مقدمہ نہیں سننا چاہیے۔ جس پر چیف جسٹس بظاہر بہت غصے میں نظر آئے۔
انہوں نے وفاقی حکومت کے نمائندگی کرنیوالے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ ہمارے اختیارات میں مداخلت کریں گے اور وہ بھی ہم سے پوچھیے بغیر۔۔۔ حکومت کیسے سپریم کورٹ کے ججز کو اپنے مقاصد کے لیے منتخب کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے۔ ایک موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس کے بعد یہ معاملہ سینئر پیونی جج کو سننا چاہیے۔ جس پر چیف جسٹس بولے؛ بہت ہوگیا اٹارنی جنرل صاحب! آپ بیٹھ جائیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کسی جج کو اپنی مرضی کے مطابق بینچ میں نہیں بٹھا سکتی۔ ضروری نہیں کہ چیف جسٹس مقدمہ سنے نہ یہ ضروری ہے کہ وفاقی حکومت مرضی کے فورم کا تعین کرے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017 میں چیف جسٹس کی مشاورت سے کمیشن کی تعیناتی کا ذکر نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا ذکر تو کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956 میں بھی نہیں تھا لیکن اس پر عدالتی فیصلے موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تین کیسوں میں حکومت نے ججز کو کمیشن نامزد کیا اور پھر نوٹیفکیشن واپس لینے پڑے۔ بولے؛ آج وہ اس درخواست کے لیے تیار ہو کر آئے تھے کہ اٹارنی جنرل ان کی بینچ میں شمولیت پر اعتراض اٹھائیں گے۔
چیف جسٹس بولے؛ بڑی افسوسناک بات ہے کہ ججوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے بہت سے مقدمات میں آپ سے فل کورٹ یا لارجر بینچ بنانے کی درخواست کی۔ اٹارنی جنرل نے آرٹیکل تریسٹھ اے اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا حوالہ دیا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بتانا چاہتے تھے کہ آپ نے قانون جلد بازی میں بنایا۔ اگر ہم سے مشورہ کیا ہوتا تو ہم آپ کو راستہ بتاتے۔ آپ نے ضمانت اور فیملی کیسز کو بھی اس قانون سازی کا حصہ بنا دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب ہم آپ کا بہت احترام کرتے ہیں کیونکہ آپ بہت نفیس انسان ہیں اور بنیادی طور پر آپ کے مؤکل وفاقی حکومت کا احترام کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 9 مئی کے سانحے کا فائدہ یہ ہوا کہ عدلیہ کے خلاف جو بیان بازی ہو رہی تھی وہ ختم ہو گئی۔ عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے۔ حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قانون سازی عجلت میں کی۔
درخواست گزار عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل دیتے ہوئے چیف جسٹس کی مرضی کے بغیر انکوائری کمیشن نہیں بن سکتا۔ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ عدالتی اجازت کے بغیر آڈیو ریکارڈنگ کرنا غیر قانونی ہے۔
شعیب شاہین کا موقف تھا کہ سب کچھ غیر قانونی ہو رہا ہے۔ وفاقی حکومت نے یہ نہیں کہا کہ آڈیو قانون کے تحت ریکارڈ کی گئی ہیں۔ یہ پیکا اور سائبر کرائم ایکٹ دونوں کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کمیشن کے ٹرم آف ریفرنس میں نہیں لکھا کہ آڈیو قانونی طور پر ریکارڈ کی گئی ہیں۔
شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج محسن اختر کیانی کا فیصلہ ہے کہ آڈیو ٹیپس قانونی طریقہ کار کے مکمل کیے بغیر نہیں چلائی جا سکتیں۔