چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پنجاب میں انتخابات پر الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے دلائل شروع کرنے سے قبل عدالت کا آگاہ کیا کہ صدر مملکت کی منظوری کے بعد نظرثانی قانون بن چکا ہے اور سپریم کورٹ کے نظرثانی کے قوانین کا اطلاق جمعہ 26 مئی سے ہو چکا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ نظرثانی قانون سے متعلق سن کر وکیل الیکشن کمیشن کے چہرے پر مسکراہٹ آئی ہے۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جمعرات کو جوڈیشل کمیشن والا کیس مقرر ہے، آپ اس بارے بھی حکومت سے ہدایات لے لیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا ’ہم بات سمجھ رہے ہیں کہ نیا قانون آچکا ہے، آج سماعت ملتوی کر دیتے ہیں، تاکہ تحریک انصاف کو بھی قانون سازی کا علم ہوجائے گا۔ اس پر عدالت نے سماعت جمعرات یکم جون تک ملتوی کر دی۔
گزشتہ سماعتوں کا احوال
پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے فیصلہ کے خلاف الیکشن کمیشن کی جانب سے نظرثانی اپیل پر پہلی سماعت 23 مئی کو جبکہ دوسری اور تیسری سماعت بالترتیب 24 اور 25 مئی کو ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 4 اپریل کو اسپیکر پنجاب اسمبلی کی درخواست پر صوبے میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا جس پر الیکشن کمیشن نے نظرثانی درخواست دائر کی تھی۔ انتخابات ایک ساتھ کرانے کے کیس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال یہ رولنگ دے چکے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی درخواست قابل سماعت نہیں کیوں کہ کمیشن نے وسائل ملنے پر انتخابات کے لیے آمادگی ظاہر کی تھی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نظرثانی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کو الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار ہی نہیں ہے۔
تحریک انصاف کی الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل مسترد کرنے کی استدعا
تحریک انصاف نے پنجاب انتخابات نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل مسترد کرنے کی استدعا کی تھی۔
تحریک انصاف نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ نظرثانی اپیل میں الیکشن کمیشن نے نئے نکات اٹھائے ہیں، نظرثانی اپیل میں نئے نکات نہیں اٹھائے جا سکتے۔ الیکشن کمیشن نئے سرے سے دلائل دینا چاہتا ہے، عدالت نے اپنے فیصلے میں کوئی تاریخ نہیں دی، عدالت نے 90 روز میں انتخابات کے لیے ڈیڈ لائن مقرر کی تھی۔ صدر مملکت نے انتخابات کے لیے 30 اپریل کی تاریخ دی، الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کی تاریخ کو تبدیل کردیا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر 30 اپریل کی تاخیر کو کور کیا۔
پی ٹی آئی نے جواب میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کا جائزہ لینے کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن چاہتا ہے سپریم کورٹ نظریہ ضرورت کو زندہ کرے، نظریہ ضرورت دفن کیا چکا جسے زندہ نہیں کیا جا سکتا۔
جواب میں کہا گیا تھا کہ 90 روز میں الیکشن آئینی تقاضا ہے، آرٹیکل 218 کی روشنی میں آرٹیکل 224 کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، آئین اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دیتا ہے، آئین میں نہیں لکھا تمام انتخابات ایک ساتھ ہوں گے۔
تحریک انصاف کی طرف سے جواب میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کے کہنے پر سپریم کورٹ آئین میں ترمیم نہیں کر سکتی، آرٹیکل 254 کے لیے 90 دنوں میں انتخابات کے آرٹیکل 224 کو غیر مؤثر نہیں کیا جاسکتا۔ آئین کے بغیر زمینی حقائق کو دیکھنے کی دلیل نظریہ ضرورت اور خطرناک ہے، خطرناک دلیل ماضی میں آئین توڑنے کے لیے استعمال ہوئی، عدالت ایسی دلیل کو ہمیشہ کے لیے مسترد کرچکی ہے۔
سپریم کورٹ اپنے 4 اپریل کے فیصلہ پر نظرثانی کرے: وفاقی حکومت
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں کہا تھا کہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کروانے کی آئینی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے۔ سپریم کورٹ نے خود تاریخ دے کر الیکشن کمیشن کے اختیار کو غیر مؤثر کر دیا، اگر پنجاب میں انتخابات پہلے ہوئے تو قومی اسمبلی کے انتخابات متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔
جواب میں کہا گیا تھا کہ پنجاب سب سے زیادہ نشستیں رکھنے والا صوبہ ہے، پنجاب میں جیت سے یہ تعین ہوتا ہے کہ مرکز میں حکومت کون کرے گا، پنجاب میں انتخابات قومی اسمبلی کے ساتھ ایک ہی وقت میں ہونے چاہییں۔
الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں: نگران حکومت پنجاب
نگران پنجاب حکومت نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں بلکہ یہ اختیار ریاست کے دیگر اداروں کا ہے۔ 14 مئی کو الیکشن کی تاریخ دے کر اختیارات کے آئینی تقسیم کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
نگران حکومت پنجاب نے جواب میں کہا تھا کہ آرٹیکل 218 کے تحت صاف شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ اسی اختیارات کی تقسیم کے پیش نظر سپریم کورٹ نے کے پی کے الیکشن کی تاریخ نہیں دی، الیکشن پروگرام میں تبدیلی کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔
جواب میں کہا گیا تھا کہ 9 مئی کے واقعہ کے بعد سیکیورٹی حالات صوبے میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد سول ملٹری املاک کو نقصان پہنچایا گیا، پر تشدد احتجاج اور مظاہرے ہوئے۔
چیف سیکرٹری پنجاب نے جواب میں کہا تھا کہ مظاہروں میں 162 پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور 97 پولیس گاڑیوں کا جلا دیا گیا، پنجاب میں الیکشن کے لیے 5 لاکھ 54 ہزار سیکیورٹی اہلکار درکار ہوں گے، اگر اس وقت الیکشن ہوئے تو صرف 77 ہزار کی نفری دستیاب ہے۔
الیکشن کمیشن کی درخواست کا پس منظر
یاد رہے کہ رواں ماہ 4 مئی کو الیکشن کمیشن نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے انعقاد کو ناممکن قرار دیتے ہوئے حکم پر نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں عدالت عظمیٰ سے 4 اپریل کے فیصلے پر نظرثانی کی استدعا کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ انتخابات کے انعقاد سے متعلق آرٹیکلز کو ایک ساتھ پڑھا جائے، سپریم کورٹ کے پاس انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں، عدالت نے تاریخ دے کر اختیارات سے تجاویز کیا۔
الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ عدالت قانون کی تشریح کر سکتی ہے، قانون کو دوبارہ لکھ نہیں سکتی، بااختیار الیکشن کمیشن وقت کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں الیکشن کمیشن نے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کا انعقاد ناممکن قرار دیتے ہوئے نئی تاریخ کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
قبل ازیں 4 اپریل کو عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے صوبہ پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں وفاقی حکومت کو فنڈز کی مد میں 10 اپریل تک 21 ارب جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن 11 اپریل کو فنڈ کی وصولی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائے، فنڈز نہ جمع کروانے کی صورت میں عدالت مناسب حکم جاری کرے گی۔