عید الاضحی قریب آتے ہی ملک بھر میں مویشی منڈیاں سج جاتی ہیں، ساتھ ہی جانوروں کی قیمتیں بھی آسمان پر پہنچ جاتی ہیں جس سے خریدار پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ مویشی منڈیوں کے قریب جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
شہر قائد کراچی میں بھی ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی سج چکی ہے اور اس بار منڈی سپر ہائی وے کے بجائے ناردرن بائی پاس پر لگائی گئی ہے۔ مویشی منڈی کے اردگرد مختلف پولیس چوکیاں بھی قائم کی گئی ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ مویشی منڈی کی سہراب گوٹھ سے ناردرن بائی پاس منتقلی خریداروں کے لیے مسئلہ بن گئی ہے، جہاں خریدار جانوروں کے مہنگے ہونے کی شکایت کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی مسائل سے بھی پریشان ہیں۔ کہتے ہیں کہ مویشی منڈی اتنی دور بنا کر ڈاکوؤں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔
صحافی فیض اللہ خان نے ٹوئٹر پر لکھا کہ سہراب گوٹھ سے 20 کلو میٹر دور مویشی منڈی بنا کر انتظامیہ نے ڈاکوؤں کو چھوٹ دیدی ہے، مزے سے شہریوں کو لوٹو ظاہر ہے جانیوالا رقم، فون اور گاڑی کیساتھ جاتا ہے۔ روز شہری لٹ رہے ہیں، زخمی ہو رہے ہیں۔ جانور سے پہلے انسان قربان ہو رہے ہیں آئی جی اور ڈی آئی جی سندھ سرکار کے پروٹوکول میں مصروف ہیں۔
سہراب گوٹھ سے20کلو میٹردور مویشی منڈی بناکرانتظامیہ نےڈاکوؤں کوکھلی چھٹی دیدی ھیکہ مزے سے شہریوں کو لوٹو ظاہر ہے جانیوالا رقم فون گاڑی کیساتھ جاتا ہے روز شہری لٹ رہے ہیں زخمی ہورہے ہیں جانور سے پہلے انسان قربان ہورہے ہیں آئی جی اور ڈی آئی جی سندھ سرکار کے پروٹوکول میں مصروف ہیں
— Faizullah Khan فیض (@FaizullahSwati) June 5, 2023
جانوروں کے بیوپاری احتشام احمد کے مطابق بدامنی اور دیگر مسائل کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد منڈی نہیں آ رہی، متبادل کے طور پر شہر کے مختلف مقامات پر درجنوں چھوٹی منڈیاں فعال ہو چکی ہیں جو خریداروں کو کم قیمت اور بحفاظت جانور فراہم کر رہی ہیں۔
سوشل میڈیا صارف ابو عبداللہ کے مطابق عید سے قبل ڈکیتیوں کے بڑھتے سلسلے اور پولیس کی مسلسل ناکامی نے شہریوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے تیئں بھی احتیاط کریں۔ کہتے ہیں ڈکیتی سے بچنے کے لیے شہری متبادل کے طور پر صرف ٹوکن کی رقم ساتھ لے کر جائیں اور سودا طے ہو جانے کے بعد بیوپاری کو رقم دی جائے یا پھر باربرداری کے لیے استعمال ہونے والی گاڑی کو جانور گھر پہنچانے پر رقم حوالے کی جائے۔
سوشل میڈیا صارفین نے بھی مویشی منڈی کی منتقلی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جان بوجھ کر یہ سب کیا گیا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو وہاں پر سی سی ٹی وی کیمروں کی ضرورت بھی ہوتی۔
Jan bouj k ye sab kiya gaya hai or agar aisa na hota tou wahan CCTV plus security zaroor hoti
— Maaz Ul Haq 🇵🇰 (@Maazulhaq17) June 5, 2023
حسن رانا نامی صارف نے لکھا کہ سہراب گوٹھ خود ڈاکوؤں کا گڑھ ہے اور وہاں سے بھی 20 کلو میٹر دور مویشی منڈی منتقل کرنے کا مطلب ڈاکوؤں کی کھلی موج ہے۔
https://twitter.com/Hasan_Rana_Pak/status/1665941163868844038?s=20
ایک صارف نے لکھا کہ شہری خود بھی باز نہیں آ رہے اگر اس بار قربانی نہیں کریں گے تو کون سی قیامت آ جائے گی؟ ان کا کہنا تھا کہ قربانی نہ کرنے کے 2 فائدے ہوں گے ایک آپ کی جان اور مال محفوظ رہے گا اور دوسرا بیوپاریوں کی عقل ٹھکانے آ جائے گی جو جانوروں کی منہ مانگی قیمت مانگتے ہیں۔
پھر بھی یہ شہری باز نہیں آرہے
اگر اس بار قربانی نہیں کرو گے تو کونسی قیامت آجائے گی
اس عمل سے دو فائدے ہونگے
پہلا: خود کی جان مال محفوظ رہے گا
دورسرا: ان بیپاریوں کی عقل ٹھکانے آجائے گی جو منہ پھاڑ پھاڑ کر پیسے مانگتے ہیں
اور زیادہ ہی شوق ہے تو اپنے علاقے سے جانور خرید لو۔۔ https://t.co/gnrmx4MAbB— Dαní (Official) (@DaniDesent) June 5, 2023
واضح رہے کہ مویشی منڈیوں میں خریداروں کا رش بڑھتے ہی چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں بڑھ جاتی ہیں۔ کئی برس سے ہر سال یہ وارداتیں ہو رہی ہیں اور خریدارر اور بیوپار بھی ہر سال حکام سے نوٹس لینے کی اپیلیں کرتے ہیں لیکن اس ضمن میں کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اس کے باوجود شہری پرعزم ہیں کہ ’ وہ صبح کبھی تو آئے گی‘۔