اقتدار نے کسی سے وفا نہیں کی، تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار کی ہوس کا انجام برا ہی ہوا۔ تازہ مثال ’لاڈلے‘عمران خان کی ہے جس نے برسرِاقتدار ہوتے ہوئے لانے والوں کی تعریفوں کے پُل باندھے اور باہر ہوتے ہی الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ ’بڑوں‘ نے ’چھوٹے‘ کو پلکوں پر بٹھایا اور اقتدار ہی نہیں وقار بھی بخشا، حکومت میں ٹکائے رکھنے کے لیے ہر قسم کے پاپڑ بھی بیلے گئے لیکن خود پسندی، نرگسیت اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی زبان نے انہیں اقتدار کی دوڑ سے باہر پھینک دیا۔
اقتدار میں تھے تو ایک پیج پر ہونے کی گردان دوہراتے رہے، ان کے حواری آرمی چیف کو باپ قرار دیتے تھے، نئے پاکستان کی نوید سناتے اور ریاستِ مدینہ کے سبز باغ دکھاتے رہے۔ لاڈلے کو تو کھیلن کو چاند بھی دیا گیا یہی وجہ تھی کہ آئندہ 10 برس بھی اقتدار میں رہنے کے اعلانات کیے گئے۔ مجھے ان کا دور حکومت ہاکی میچ کی طرح لگتا تھا کہ گیند سمیع اللہ نے کلیم اللہ کو دی اور کلیم اللہ نے پھر سمیع اللہ کو دی لیکن ڈی میں پہنچ کر بھی گنید گول پوسٹ میں نہ پھینکی جا سکی اور بلند و بانگ دعوؤں کے بعد ساڑھے 3 برس بعد خواب غفلت سے آنکھ کھلی تو پاکستان بہت پیچھے رہ چکا تھا۔
عمران خان نے قوم کو جو سہانے خواب دکھائے تھے ان کی تعبیر نہ مل سکی نتیجتاً ان کی جماعت ریت کے ذروں کی طرح بکھرتی چلی گئی۔ طویل جدوجہد کے بعد ایسی جماعت تشکیل دی گئی جو لوٹوں کا مدفن ثابت ہوئی۔ تازہ مثال دیکھ لیں کراچی میئر کے انتخاب میں جماعتِ اسلامی کی حمایت کا فیصلہ کیا گیا تو وہاں بھی مانگے تانگے کے لوگ اپنا اپنا مول لیکر پی ٹی آئی کے لیے ’انمول‘ ہو گئے اور پیپلزپارٹی نے جمہوریت سے بہترین انتقام لیتے ہوئے اکثریت کو اقلیت میں بدل کر بازی مار لی۔
پی ٹی آئی جس طرح بنی تھی بالکل اسی طرح ختم ہو گئی، کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ جس جہاز پر بنی تھی اسی میں ڈوب گئی۔ عمران خان نے اقتدار کی ہوس میں طویل جدوجہد کرنے والے ساتھیوں کو پسِ پشت ڈال کر ڈال، ڈال پر بیٹھنے والے پنچھی اکٹھے کیے تھے جو اقتدار کے مزے لوٹ کر واپس اپنی اپنی ڈال پر بیٹھ چکے ہیں یا انہوں نے نئے آشیانے ڈھونڈ لیے ہیں، کپتان کو آج کل تنہائی کی نعمت میسر ہے انہیں سوچنا چاہیے کہ ان کی ٹیم میں آخر کیا خرابی تھی کہ فتح کے دعوؤں کے باوجود کوڑیوں کے بھاؤ بک گئی۔
اقتدار کے پاور پلے میں پہلے عمران خان ’نیوٹرلز‘ کے پارٹنر تھے تو اب پی ڈی ایم ہے۔ لیکن اس سارے کھیل میں معیشت تباہ ہو گئی جس کی ذمہ داری کوئی بھی لینے کو تیار نہیں۔ اسحاق ڈار کو بہت بڑے ماہر معیشت کے طور پر میدان میں اتارا گیا تھا لیکن وہ بھی معیشت کے چاند کو مہنگائی، بیروزگاری اور ڈیفالٹ کے سیاہ بادلوں سے نہ نکال سکے۔ انہوں نے اپنی نالائقی کا ملبہ بالترتیب مفتاح اسماعیل، حماد اظہر، عبدالحفیظ شیخ اور اسد عمر تک پر ڈال کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کی لیکن وہ یقیناً جانتے ہوں گے وزرائے خزانہ کی یہ الٹی گنتی بھی ان کے نام پر جا رکتی ہے۔
اقتدار کی لت ہی ایسی ہے کہ عمران خان بہر صورت تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں اور شکوہ کناں بھی ہیں کہ ’عاشقاں توں سوہنا مکھڑا لکان لئی سجناں نے بوہے اگے چک تان لئی‘۔ برملا کہتے ہیں کہ ’کوئی‘ ان سے بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ یہاں مرزا نوشہ بھی یاد آتے ہیں:
’بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں
پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے‘
اقتدار و اختیار کی ہوس کبھی ختم نہیں ہو سکتی نہ سیاسی جماعتوں کی اور نہ ہی مقتدرہ (اسے مقتدرہ قومی زبان نہ سمجھا جائے) کی۔ بزرگ کہا کرتے تھے کہ نابینا کو بینائی ملتے ہی وہ سب سے پہلے اس چھَڑی سے جان چھڑاتا ہے جو اس کا سب سے بڑا سہارا تھی، یہی ’قاسم کے ابا‘ نے اپنی چھَڑی کے ساتھ کیا۔ اب کیا ہے کہ چِٹے دن چھَڑی ٹٹولتے پھرتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ نئے صاحبِ چھَڑی دیس بدیش گھوم پھر رہے ہیں ملک کو دیوالیے سے جو بچانا ٹھہرا۔
وطن عزیز کی تاریخ 75 سال سے گواہی دے رہی ہے کہ ہر صاحب اختیار بے اقتدار ہونے پر ہی بے اختیاری کا رونا روتا ہے، جانے یہ راگ ملہار انہیں کرسی پر بیٹھے کیوں یاد نہیں آتا؟ تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والے تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں، اس تناظر میں ہماری نسل نے تو یہی سبق سیکھا ہے کہ ملکی’سیاہ ست‘ سانپ اور سیڑھی کا کھیل ہے، کہ کسی وقت بھی پانسہ پلٹا اور بندہ 99 سے زیرو پہ آ جاتا ہے۔ اگرچہ عمران خان آج زیرو پر ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ ممکنات کے اس کھیل میں آنے والے دنوں میں ان کا پانسہ بھی ’مجھے کیوں نکالا‘ کی طرح پلٹ جائے۔