اقوام مغرب کے بارے میں میرا گمان ہمیشہ سچ ثابت ہوا کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے بے حد و حساب حسد محسوس کرتی ہیں۔ مغربی ادارے اسی حسد کے مارے پاکستانی جمہوریت کو کسی خاطر میں نہیں لاتے، اس کا مقام و مرتبہ گھٹانے کی گھناؤنی سازش کرتے رہتے ہیں۔اور باقاعدگی سے اس کی رپورٹ بھی جاری کرتے ہیں۔ تفصیل اس اجمال کی،آپ کے سامنے رکھوں گا تو یقیناً آپ بھی میری رائے سے اتفاق کریں گے۔
’اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ‘ کے نام سے ایک امریکی ادارہ ہے۔ اس نے ہر سال کی طرح، امسال بھی رپورٹ جاری کی کہ دنیا میں کون سا ملک کتنا جمہوری ہے۔ مملکت خداد پاکستان سے حسد میں مبتلا اس ادارے کی نظر میں جمہوری نظام حکومت کیا ہے؟ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے۔
جمہوری ملک وہ ہوتا ہے جہاں طاقت عوام کے ہاتھ میں براہ راست ہو یا پھر ان کے منتخب نمائندوں کے ذریعے۔ کسی بھی معاشرے میں جمہوریت ہے یا نہیں، اگر ہے تو کتنی ہے؟ اس کے لیے پیمانہ آزادانہ و منصفانہ انتخابات کا انعقاد، قانون کی حکمرانی، شہری آزادیاں اور سیاسی عمل میں لوگوں کی شرکت ہے۔
ہر ملک میں جمہوریت کو جانچنے کے لیے وہاں کے لوگوں کی رائے حاصل کی جاتی ہے کہ ان کی نظر میں ملک کس انداز میں چلایا جارہا ہے اور ان کے شخصی حقوق اور آزادیوں کو کس قدر تحفظ حاصل ہے۔ جمہوری انڈیکس تیار کرتے ہوئے 10نمبروں کا ایک پیمانہ رکھا جاتا ہے، پھر دیکھا جاتا ہے کہ کون سا ملک کتنے نمبر لیتا ہے، یوں تمام ممالک کی ایک فہرست مرتب کی جاتی ہے اور ہر سال رینکنگ جاری کی جاتی ہے۔
امسال جائزہ لیا گیا تو ناروے دنیا کا سب سے زیادہ جمہوری ملک قرار پایا جس نے 9.8نمبر حاصل کیے۔سب سے زیادہ جمہوری 15ممالک کی فہرست میں نیوزی لینڈ، فن لینڈ، سویڈن، آئس لینڈ، ڈنمارک، آئرلینڈ، تائیوان، آسٹریلیا، کینیڈا، نیدر لینڈ، سوئزرلینڈ، یوراگوائے، جرمنی اور لکسمبرگ بھی شامل ہیں۔
آپ اندازہ کریں اس مغربی ادارے کے حسد کا کہ پاکستان کو فہرست میں 102نمبر دیا گیا ہے، اور ہمارے پیارے وطن کو صرف 4.3نمبر دیے گئے ہیں۔ حالانکہ ہمارے بالغ نظر حکمران اور سیاست دان جس طرح جمہوریت کی نشوونما کرتے ہیں، اس کا تحفظ کرتے ہیں، جمہوری استحکام کے لیے اپنا تن، من، دھن قربان کرتے ہیں، اس کا اندازہ اگلے روز پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں کراچی میں ہوا۔
کہا جاتا ہے کہ وہاں کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے اپنی بدترین مخالف پارٹی ’تحریک انصاف‘ کے 31 ارکان کو اس قدر محفوظ مقام پر اقامت فراہم کی کہ خود ان ارکان کو بھی علم نہیں تھا کہ وہ کہاں پر ہیں۔ جو حفاظتی پولیس اسکواڈ صدر مملکت، وزیراعظم کی کراچی آمد پر سیکیورٹی فراہم کرتا ہے، کہا جاتا ہے کہ اسی اسکواڈ کے اہلکاروں نے ان ارکان کو گھروں سے لیا اور انہیں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے شاندار، پرتعیش، پر فضا علاقے میں پہنچایا۔ وہاں انہیں کئی روز تک تمام تر سخت حفاظتی انتظامات کے ساتھ رکھا گیا۔ اب آپ ہی بتائیں کہ اس سے زیادہ شاندار انداز میں حفاظت کرسکتا ہے کوئی ملک جمہوری عمل کی؟
جمہوریت کے تحفظ کے لیے یہی کاوشیں نہیں کی گئیں، بلکہ ان ارکان کو ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشن بھی نہیں جانے دیا گیا کیونکہ خبریں تھیں کہ ایک خطرناک سمندری طوفان ’بپر جوائے‘ کراچی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ بھی خبر تھی کہ جہاں ووٹنگ کا عمل انجام پائے گا، وہاں اردگرد کی سڑکیں بارش کے پانی سے دریا بن جائیں گی اور ہوسکتا ہے کہ پانی پولنگ اسٹیشن کے اندر بھی داخل ہوجائے۔ ایسے میں ان ارکان کی زندگیوں کی حفاظت کے لیے ضروری تھا کہ انہیں پولنگ اسٹیشن سے دور بلکہ بہت دور رکھا جائے۔ اب کوئی جاکر جمہوری انڈیکس تیار کرنے والے اس حاسد ادارے سے پوچھے کہ کیا لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ حکومت کا فرض نہیں؟
جن سب سے زیادہ جمہوری 15ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے، کیا ان ممالک میں پارلیمان یا پھر ایسے ہی کسی ادارے کے ارکان کو محفوظ و مامون رکھنے کی ایسی شاندار مثال مل سکتی ہے؟ اس کے برعکس ہمارے پیارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اکثر دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کے باوجود ہمیں جمہوری ممالک کی فہرست میں سب سے آخری نمبروں میں رکھا گیا اور ہمارے ازلی دشمن ملک بھارت کو 69ویں نمبر پر رکھا گیا اور اسے 10میں سے 6.9نمبر دیے گئے۔کوئی اندازہ کرسکتا ہے ان مغربی اداروں کے حسد کا؟
صوبہ سندھ کی حکمران جماعت نے تحریک انصاف کے ارکان کے آرام و سکون کا اس قدر زیادہ خیال رکھا گیا کہ ذرائع ابلاغ میں ان کی ترجمانی کا اہم فریضہ بھی خود سر انجام دیا، انہیں پریس کانفرنس کے لیے پرتعیش علاقے سے باہر نکلنے کی زحمت بھی نہ کرنے دی گئی۔ حکومت نے خود ہی ساری تکلیف جھیلی اور لوگوں کو آگاہ کیا کہ تحریک انصاف کے 31ارکان نے فارورڈ بلاک بنالیا ہے، وہ ووٹنگ کے عمل میں شریک نہیں ہونا چاہتے۔ اب حکومت سندھ اس سے زیادہ جمہوریت کی خدمت کیا کرسکتی تھی!
ادھر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان سندھ حکومت کے اس ’حسن انتظام‘ پر اس قدر مطمئن پائے گئے کہ انہوں نے کوئی ٹویٹ کرنے سے بھی گریز کیا کہیں اس سارے ’حسن انتظام‘ پر کوئی مضر اثرات نہ پڑ جائیں، ورنہ وہ دن میں بار بار ٹویٹ کرنے کے عادی ہیں۔ پہلے انگریزی زبان میں، پھر اس کا اردو زبان میں ترجمہ پیش کرتے ہیں۔
آپ خود ہی اپنی آنکھوں سے ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ چیک کرلیں، 14جون سے17جون کی صبح (جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں) تک، خان صاحب نے مختلف ایشوز پر ٹویٹس کیں لیکن اپنے 31چیئرمینوں کے لیے کوئی ایسی ٹویٹ نہیں کی، جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ انہیں لا پتہ کیا گیا ہے، انہوں نے اپنے ارکان کے فارورڈ بلاک بنانے کی خبر پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ جناب عمران خان اپنے ارکان کو میسر ’حفاظتی انتطامات‘ پر مکمل طور پر مطمئن ہیں۔ انہیں کوئی شکوہ شکایت نہیں کہ ارکان کی خدمت میں کوئی کسر باقی رہ گئی ہے۔ اسے کہتے ہیں پاکستانی جمہوریت۔ یہ ہوتا ہے ایک مکمل جمہوری معاشرہ جہاں دو متحارب سیاسی جماعتیں بھی ایک دوسرے کا اپنے آپ سے بڑھ کر خیال رکھتی ہیں۔
پاکستانی جمہوریت اس قدر شاندار ہے کہ ہر بار ایوان بالا(سینیٹ) کے انتخابات پر بدترین مخالف سیاسی جماعتیں بھی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی خوب خاطر تواضع کرتی ہیں، ان کی مالی کمزوریوں کا احساس کرتے ہوئے کروڑوں روپے ان کی جیبوں میں ڈال دیتی ہیں۔ اور یہ عمل اس سنہری اصول کی روشنی میں سرانجام دیتی ہیں کہ ایک ہاتھ دے اور دوسرے کو پتہ بھی نہ چلے۔
اے حسد، جلن اور کڑھن کے مارے ہوئے اہل مغرب!
ایک پارٹی کا اپنی مخالف سیاسی پارٹی کے لوگوں کی اپنی جان سے بڑھ کر حفاظت کرنا، اور جناب عمران خان کا اپنی بدترین مخالف پارٹی کی ایسی خدمات پر مطمئن، خاموش رہنا(خاموشی نیم رضامندی ہوتی ہے) جمہوریت نہیں ہے تو کیا ہے؟ اسے کہتے ہیں شیر اور بکری کا ایک گھاٹ سے پانی پینا۔
اگر اہل مغرب اس سب کچھ کا غلط مطلب لیتے ہیں تو اس میں پاکستانی حکمرانوں اور سیاست دانوں کا کیا قصور؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوریت کے تحفظ کے لیے شبانہ روز کوششیں جاری ہیں۔ جمہوریت کا چراغ یہاں ایسے ہی روشن رہے گا، چاہے مغربیوں کو کتنا ہی برا لگے!!