14 جون کو لیبیا سے اٹلی جانے والی کشتی جنوبی یونان کے ساحل پر ڈوبنے سے درجنوں افراد لاپتا ہوگئے جن میں سے ایک بڑی تعداد تارک وطن پاکستانیوں کی تھی۔
اس حادثے کے بعد یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان میں سے کوئی فرد 34 لاکھ روپے دے کر جانے کا خواہشمند تھا تو کوئی 50 لاکھ روپے کے عوض ملک سے باہر جانے کے خواب دیکھ رہا تھا۔
مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اتنی رقم ادا کر کے بیرون ملک نوکری کے لیے ہی جانا تھا تو اتنے میں تو وہ ملک میں ہی اپنا کاروبار شروع کر سکتے تھے پھر انہوں نے ایسا کرنے کی بجائے غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کو ترجیح کیوں دی۔
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فیڈرل چیمبر آف کامرس کے صدر احسن ظفر بختاوری نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر کوئی ملک سے باہر جانا چاہتا ہے اور یونان میں حال ہی میں ڈوبنے والی کشتی میں موجود پاکستانی اس بات کی مثال ہیں کہ انہیں کسی بھی طرح بیرون ملک پہنچنا تھا اوراس کے لیے جتنی بھی رقم درکار ہوتی وہ ادا کرنے کے لیے تیار تھے کیونکہ پاکستان میں اس بات کی آگاہی نہیں ہے کہ وہ ملک میں رہتے ہوئے کوئی کاروبار شروع کر سکتے ہیں۔
احسن ظفر بختاوری نے کہا کہ پاکستان میں کاروبار کے بارے میں کسی بھی سطح پر تعلیم نہیں دی جاتی۔ جب کہ 10 سے 15 لاکھ روپے سے بھی ملک میں کاروبار شروع کیا جا سکتا ہے جو منافع بخش بھی ہوگا۔
اس حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ایسے بیشمار کاروبار ہیں جو اتنے پیسوں میں شروع کیے جا سکتے ہیں جیسا کہ کریانہ اسٹور، کوئی چھوٹے پیمانے والی فیکٹری یا پھر کسی پراڈکٹ کا سپلائر بھی بنا جا سکتا ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ لیکن ہمارے ملک میں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کاروبار شروع کرنے کے لیے کوئی رہنمائی و تعلیم نہیں دی جاتی۔
ایک سوال کے جواب میں احسن ظفر کا کہنا تھا کہ لوگ ملازمتیں ڈھونڈنے کی بجائے کاروبار کی جانب بڑھیں اور حکومتی سطح پر اس کے فروغ کے لیے مزید پالیسیاں بنائی جائیں۔
ایف آئی کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ انسانی اسمگلنگ کو کم کیا جا سکتا ہے مگر کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہمیشہ سے لوگ سرحد پار کر کے دوسرے ملکوں میں جاتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے بلکہ اس میں معاشی اور معاشرتی سمیت کئی عوامل شامل ہیں جس پر قابو پانے کے لیے پورے نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
افسسر کا کہنا تھا کہ انڈیا اور بنگلہ دیش میں پاکستان کی نسبت انسانی اسمگلنگ بہت کم ہے کیوں کہ پاکستان میں نوکریاں نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے لوگ مایوس ہو چکے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس میں انسانی رویوں میں تبدیلی بھی ایک وجہ ہے کیوں کہ لوگ راتوں رات امیر ہونا چاہتے ہیں اور انہیں ہر چیز میں شارٹ کٹ چاہیے ہوتا ہے۔
انسانی اسمگلنگ کے خاتمے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایف آئی کو مزید سخت قانون بنانے کی ضرورت ہے تا کہ اس طرح کی اسمگلنگ پر قابو پایا جا سکے اور حکومتی سطح پر ہر ان مسائل کو بھی حل کیے جانے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے لوگ ملک سے باہر جانے کے لیے اس قسم کے قدم اٹھاتے ہیں۔
معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ ملک میں لوگوں کے پاس مواقع نہیں ہیں جس کے باعث ان میں اب کسی چیز کی امید باقی نہیں رہی اور نظام سے لوگوں کا یقین اٹھ چکا ہے۔
مہتاب حیدر نے کہا کہ جس ملک کی ترقی کی شرح جھوٹ بتائی جاتی ہو اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی شرح 50 فی صد تک پہنچ گئی ہو وہاں لوگوں میں کیا امید باقی رہ جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کےبیرون ملک جانے کی بھی یہی وجہ ہے کہ یہاں پر نظام لوگوں کو کاروبار کرنے کے حوالے سے کوئی سہولت فراہم نہیں کرتا اور نہ ہی ہمارے تعلیمی نظام میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ نوکری نہیں بلکہ کاروبار کی جانب بڑھیں۔
ایک سوال کے جواب میں مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ کسی بھی نئے آنے والے کاروبار کے مستحکم ہونے سے قبل ہی اس پر ٹیکسز کی بھرمار کر دی جاتی ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ ان چھوٹی صنعتوں کو وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر ہر ادارے سے رابطے میں رہنا ہوتا ہے جو کہ ایک بہت پیچیدہ عمل ہے جس کے باعث پاکستان میں کاروبار کرنے میں لوگوں میں دلچسپی ختم ہوتی جا رہی ہے۔