چلیں پھر گائے میں حصہ ہی ڈال لیں!

پیر 26 جون 2023
author image

مشکور علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

غالباً بکرا عید ہی کے دنوں میں خلیل جبران کے ایک دوست نے انہیں دُنبہ تحفے میں بھجوایا، جواباً خلیل جبران نے بھی انہیں اونٹ عنایت کردیا، دوست نے اونٹ ملتے ہی مزید 2 دُنبے بھیج دیے، اس پر خلیل جبران نے پھر 2 اونٹ دوست کو بھجوا دیے۔ دوست نے خلیل جبران کے گھر 4 اونٹ اور بندھے دیکھے تو گھر جاتے ہی 4 دُنبے پھر بھجوا دیے۔ اس کے بعد خلیل جبران نے کیا کِیا محققین نے اس بارے میں چپ سادھ رکھی ہے، لیکن تازہ ترین تحقیق کے مطابق دنبوں اور بکروں کی مختلف نایاب اقسام میں سے 5 اہم اقسام پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ چونکہ بیل اور گائے کی قربانی کی بدولت عیدالاضحیٰ کو ’بقر عید‘ کہا جاتا تھا لیکن پھر بکروں کی مذکورہ 5 اہم اقسام کی وجہ سے ہی ’بقرعید‘ کو بکراعید کہا جانے لگا۔

بکروں کی ان 5 اقسام میں سب سے زیادہ اہم اور قابل استعمال قسم قصائی کا بکرا ہے۔ اس بکرے کی سب سے اہم اور خاص بات یہ ہے کہ اسے سالم یا زندہ حالت میں آج تک کسی گوشت خور نے نہیں دیکھا، سونے پر سہاگا یہ کہ جو احباب ذبح خانے میں جانور اور گوشت چیک کرنے کی ڈیوٹی پر مامور ہوتے ہیں وہ ہرے اور نیلے نوٹوں پر موجود قائداعظم کے احترام میں بلا تخصیص بکرے کے ہم جثہ کسی بھی جانورکےگوشت پر OK کی مہر ثبت کردیتے ہیں۔ یوں قصائی کا بکرا پورے ملک میں میٹ شاپس، دکانوں، پھٹوں اور تھڑوں پر پرچون کی شکل میں فروخت کردیا جاتا ہے۔ اس کی فی کلو قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے جسے ہر پندرہویں روز پیٹرول کی قیمت میں اضافے کی صورت میں بڑھا دیا جاتا ہے اور پیٹرول کی قیمت میں کمی کی صورت میں قیمت کو بدستور قائم رکھا جاتا ہے تاکہ بکرے کا بھرم قائم رہے۔ غریب لوگوں کو قصائی کے بکرے کی جانب راغب کرنے کے لیے اس کے گوشت کو چھوٹا گوشت بھی کہا جاتا ہے لیکن اسے بڑے لوگ ہی ’افورڈ‘ کر سکتے ہیں۔ غریب طبقہ محرومی کا ازالہ کرنے کے لیے بڑے گوشت کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر ’چھوٹا گوشت‘ بنا لیتا ہے۔ یوں پاکستان میں پائی جانے والی طبقاتی تقسیم کا منفرد پہلو سامنے آتا ہے کہ غریب لوگ بڑا جبکہ بڑے لوگ چھوٹا گوشت کھاتے ہیں۔

ڈولی دنیا کی پہلی کلوننگ بھیڑ تھی جو کسی کے کام آئے بغیر اگلے جہاں سدھار گئی (ڈولی 5 جولائی 1996 کو پیدا ہوئی تھی اور اس کا نام گلوکارہ ڈولی پارٹن کے نام پر رکھا گیا تھا، ڈولی 14 فروری 2003 تک زندہ رہی) اگر مرحومہ وطن عزیز پاکستان میں اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کرتی تو قوی امکان تھا اسے کسی قصائی کے حوالے کر دیا گیا ہوتا، یوں اس کی کھال، گوشت اور سری پائے تک ٹھکانے لگ چکے ہوتے۔ قصائی کے بکرے کی اوجڑی، گردے، پھیپھڑے، کلیجی، گوشت، کھال اور سری پائے حتیٰ کہ ’کپورے‘ بھی ہاتھوں ہاتھ بِک جاتے ہیں اگر کپورے اور گردے نہ بکیں تو انہیں ہوٹلوں میں سپلائی کر دیا جاتا ہے جہاں وہ ’ٹکا ٹک‘ کی صورت ’فٹا فٹ‘ بِک جاتے ہیں۔

پاکستان میں پائے جانے والے بکروں کی دوسری اہم قسم عقیقے کا بکرا ہے۔ بکروں کی یہ قسم قدرے خوش قسمت سمجھی جاتی ہے کیونکہ وطن عزیز میں مہنگائی کے سبب بہت کم لوگ عقیقے کے بکرے کو قربانی کی زحمت دیتے ہیں۔ یوں بیٹے کی پیدائش پر 2 اور بیٹی کی پیدائش پر ایک بکرے کی قربانی کی جاتی ہے۔ عقیقے میں روا رکھے جانے والے اس امتیازی سلوک کا ’تحفظ نسواں‘ بل میں بھی دور دور تک کوئی ذکر نہیں۔ ’موم بتی مافیا‘ کو چاہیے وہ اس ضمن میں بھی ’کینڈل مارچ‘ کرے۔ عقیقے کے بکروں کی خاص پہچان ان کی ناتوانی اور لاغر پن ہے جس کا براہِ راست تعلق ’منے کےابا‘ کی جیب سے ہوتا ہے۔

بکروں کی تیسری اہم قسم صدقے کا بکرا ہے، اس قسم میں کالے بکروں کی اہمیت دوچند ہوتی ہے۔ یہ بکرے سر پر پڑی افتاد، بیماریوں سے نجات اور جادو ٹونے کے بد اثرات زائل کرنے کے علاوہ بلاؤں کو ٹالنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ صدقہ دینے والا شخص بکرے کو ہاتھ لگا کر صدقہ کر دیتا ہے۔ یوں بکرا کسی مسجد یا مدرسے میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں اکثر اوقات تو مولوی حضرات دو 3 ہزار روپے کم پر کسی قصاب کو فروخت کر دیتے ہیں یا پھر احباب کی ضیافت کا اہتمام کر لیا جاتا ہے۔ صدقہ دینے والا شخص صدقے کے بکرے کا گوشت نہیں کھا سکتا، اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ’بیمہ پالیسی‘ کا پالیسی ہولڈر کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ اہل زبان صدقے کے بکرے کے لیے مَریل، منحنی اور نحیف ولاچار جیسے الفاظ استعمال کرتے بھی دیکھے گئے ہیں۔ صحت کے حوالے سے خاصا نازک مزاج ہے۔ اس قسم کے بکروں کے لیے عمر، قد اور وزن کی کوئی قید نہیں۔ بس خیال رہے کہ صدقے کا بکرا ایسا ہو جو کم از کم اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہو۔ باقی اللہ غفور الرحیم ہے، وہ صدقہ قبول فرمائے گا۔ یوں بات اللہ پر ڈال کر ہر حجم اور وزن کے کالے بکرے اس ضمن میں قربان کیے جا رہے ہیں۔

بکروں کی چوتھی اہم قسم عید کا بکرا ہے۔ بکروں کی یہ قسم نہایت خوبصورت، قد کاٹھ اور وزن میں بے مثال اور قیمت میں بے حساب ہوتی ہے۔ اس بکرے کی خوبی یہ ہے کہ یہ بہت قیمتی اور نازوں سے پَلا ہوتا ہے۔ اس نسل کا تعلق اگرچہ امرا سے ہے لیکن بعض ملازمت پیشہ افراد بھی اپنی کل تنخواہ میں ساٹھ 70 ہزار’ادھارے‘ ڈال کر یہ بکرا خرید سکتے ہیں۔ عید کا بکرا خریدنے سے قبل محلے باالخصوص اڑوس پڑوس کے بکروں کا جائزہ ازحد ضروری ہے تاکہ ایسا بکرا خریدا جائے جو محلے میں ناک اونچی رکھنے کا ذریعہ بنے۔ عید کے بعد بھلے ادھار واپس لینے والا سال بھر دروازہ کھٹکھٹاتا رہے کہ بکراعید بھی تو سال میں ایک بار ہی آتی ہے ناں۔ اس بکرے کے بارے میں 2 اہم سوال ضرور پوچھے جاتے ہیں، ماشا اللہ کتنے میں لیا اور گوشت کتنا نکلےگا؟ عید کے بکرے کو خاص اہتمام سے سجایا جاتا ہے گلے میں گانی اور پیروں میں جھانجھریں ڈالی جاتی ہیں تاکہ چلے تو محلے میں سب کو پتا چلے لیکن جب کبھی بدقسمتی سے چور اسے اٹھا کر لے جاتے ہیں تو کسی کو پتا نہیں چلتا، جیسے پچھلے برس لاہور میں کرکٹر کامران اکمل کا عید کا بکرا چوری ہو گیا تھا۔ یوں اس قسم کے بکرے چوری ہونے کے بعد کئی بار بکتے ہیں لیکن ایک نہ ایک دن انہیں قربان ہونا پڑتا ہے کیونکہ ان کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ اس بکرے کا وصف صرف یہ ہے کہ یہ سارے کا سارا ’تعلقات ِخاصاں‘ میں کام آجاتا ہے۔ اس کی ’رانیں‘ کم ازکم دو بڑے صاحبان کو ’رام‘ کر سکتی ہیں جبکہ پُٹھ، دستی اور چانپیں وغیرہ بھی بحیثیت منصب ’کِھلا اور پِلا‘ دی جاتی ہیں۔ اگرچہ ’صاحب بکرا‘ کی کھٹیا کھڑی ہو جاتی ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ یہ نسخہء اکسیر کئی گرہیں اور رستے کھول دیتا ہے۔

بکروں کی پانچویں اور سب سے زیادہ اہم قسم قربانی کا بکرا ہے۔ بکروں کی یہ قسم ہر بقرعید پر قربان کی جاتی ہے۔ قربانی کے بکرے عید کے بکروں سے نسبتاً کم قیمت اور ’مندرے‘ ہوتے ہیں بھلے ان کا تعلق ’مندرہ‘ سے نہ بھی ہو۔ ان کا بغیر کسی عیب کے دوندا یا چوگا ہونا ضروری ہے ’چھکا‘ ہونا بعض معاملاتِ زندگی میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ انہیں نمازعید کے بعد بذریعہ قصائی یا ازخود ہی اللہ کی خوشنودی کے لیے ذبح کر دیا جاتا ہے۔ بکرا ذبح کرکے ایمانداری سے گوشت کے برابر وزن کے 3 حصے بنائے جاتے ہیں جنہیں نہایت سلیقے، مہارت اور سگھڑ پن سے ڈیپ فریزر کے تینوں حصوں میں محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ قربانی کے بکرے کا گوشت بہت برکت والا ہوتا ہے اور 2 اڑھائی ماہ تک فریج سے نکال کر پکایا جاتا رہتا ہے۔ بعض ایماں کی حرارت والے ایسے بھی ہیں جو ثواب کی خاطر 4 مہینے تک قربانی کا گوشت کھاتے رہتے ہیں۔ قربانی کے بکرے کی کھال بھی بڑے شہروں میں خاصا وبال مچاتی ہے کیونکہ مختلف جماعتوں، تنظیموں اور مدارس کے منتظمین عید سے ہفتہ قبل ہی کھال کی پرچیاں ایڈوانس بکنگ کی صورت میں دروازے پر ڈال جاتے ہیں۔ یوں گھر میں مختلف نظریات کے حامل افراد کی بدولت کسی ایک ’حقدار‘ کا فیصلہ نہیں ہو پاتا لہٰذا بکرے کی کھال محلے کی مسجد ہی کو دینا پڑتی ہے۔ قربانی کا بکرا چونکہ سب سے اہم اور زیادہ استعمال ہونے والی قسم سے تعلق رکھتا ہے اس لیے اس کے استعارے اور تشبیہات بھی مشہور ہیں جیسے بجٹ کے موقع پر عوام کو قربانی کا بکرا کہا جاتا ہے۔ وہ الگ بات کہ قربانی کے بکرے کو تو سال میں 3 دن چھری ٹوکے کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن عوام کو بجٹ سے اگلے بجٹ تک پے درپے چھریوں (منی بجٹ) کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چلیں چھوڑیں یہ بتائیں کہ آپ کو کوئی بکرا پسند آیا؟
نہیں ۔ ۔ ۔ ۔

چلیں پھر آپ گائے میں حصہ ہی ڈال لیں!

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp