ریسٹورنٹ مالک جو فوجی بغاوت پر اتر آیا

پیر 26 جون 2023
author image

اسامہ خواجہ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سینچر کے روز بیرونی دنیا کے حالات جاننے کے لیے جیسے ہی ٹویٹر کھولا تو روس میں نجی عسکری گروپ کی جانب سے بغاوت کی خبریں دیکھنے کو ملیں۔ تفصیل کے لیے ٹیلی گرام گروپس کا رُخ کیا ہی تھا کہ روسی صدر پوتن کی جانب سے ویگنر گروپ کی مسلح بغاوت کوغداری قرار دینے کی خبر ملی۔اپنے خطاب میں انہوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کو سخت سزا کی دھمکی دی۔

ویگنر اورکرائے کےعسکری گروہ

کرائے کے عسکری گروہوں کا استعمال کئی تنازعات مثلاً ویت نام، عراق اور افغان جنگ میں کثرت سے دیکھنے کو ملا۔ عرب اسپرنگ کی زد میں آنے والے کئی ممالک میں یہ گروہ بڑی تعداد میں پیدا کیے گئے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد دوبارہ سے ابھرتے ہوئے روس نے عالمی طاقتوں کی پراکسی جنگوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کئی عسکری گروہوں کی پسِ پردہ حمایت کی۔2014 ء میں منظر عام پر آنے والے اس گروپ کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسے پہلی اور دوسری چیچن جنگ لڑنے والے ایک سابق روسی فوجی افسر دمتری یوٹکن
نے تشکیل دیا۔

روسی گروہ ویگنر پی ایم سی کے لیڈر دمتری یوٹکن کی اگست 1999 میں لی گئی تصویر۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

 

ویگنر نامی گروہ یوکرین ، شام ، لیبیا اور وسطی افریقی جمہوریہ میں ہونے والے تنازعات میں روسی مفادات کے لیے لڑتا رہا ہے۔ موجودہ بغاوت میں اب تک اس پریگوزن ہی اس کے واحد چہرے کے طور پر سامنے آئے ہیں لیکن ماضی میں اس گروہ کے حوالے سے متضاد اطلاعات آتی رہی ہیں۔ مثلاً کچھ جگہوں پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ دمتری یوٹکن اس گروہ سے علیحدہ ہو چکے ہیں، جب کہ کچھ میڈیا رپورٹس میں ان کی ہلاکت کی خبریں بھی دی گئی ہیں۔ ایسے ہی روسی معاملات پر نظر رکھنے والے کچھ ماہرین کے مطابق ویگنر کسی ایک گروہ کا نام نہیں بلکہ یہ مختلف ممالک میں لڑنے والے نیٹ ورکس پر مشتمل ہے جو کسی ایک مرکز یا عہدے دار کے تابع نہیں ہیں۔

جب ریسٹورنٹ مالک پوتن سے ملا؟

روس میں حالیہ بغاوت کے ذریعے شہرت پانے والے ویگنر گروپ کے اس وقت سربراہ پوتن کے سابقہ حلیف یوگینی پریگوزن ہیں۔2018 ء میں روسی حزب اختلاف کے رہنما الیکسی ناوالنی نے پریگوزن پرکرپشن کے الزامات بھی لگائے تھے۔ ناوالنی کے مطابق پریگوزن 9 برس جیل میں گزار چکے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد پریگوزن نے سینٹ پیٹر زبرگ میں ایک ریسٹورنٹ کے ذریعے کاروبار کاآغاز کیا۔ 2001 ء میں اس کی ملاقات پوتن سے ہوئی۔ناوالنی کے مطابق پوتن سے تعلقات قائم ہونے کے بعد ان کے حالات بدلنا شروع ہوئے۔ سال 2010 ء تک پریگوزن کی بنائی ہوئی کمپنیاں سرکاری سکولز، فوج اور کئی وزارتوں کو خوراک کے سامان کی ترسیل کر رہی تھی۔ پریگوزن کو جنگی سازو سامان اور دیگر معاملات میں وزارت دفاع کی جانب سے دئیے گئے کنٹریکٹس اس کے علاوہ تھے۔

ستمبر 2010 میں اس وقت کے روسی وزیراعظم ولادی میر پوتن اپنے دوست یوگینی پریگوزن کے ہمراہ فوڈ کی فیکٹری کا دورہ کرتے ہوئے۔ (فوٹو: سپوتنک)

ویگنر گروپ نے بغاوت کیوں کی؟

واشنگٹن پوسٹ نے گزشتہ روز اپنی ایک رپورٹ میں امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے وائٹ ہاؤس کو دی جانے والی ایک بریفنگ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ جون کے وسط میں انہیں ویگنر گروپ کی جانب سے روس میں ممکنہ بغاوت کے بارے میں معلوم ہو گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق روسی وزارت دفاع نے10 جون کو ایک حکم نامے کے ذریعے تمام رضاکار فوجی دستوں کو حکومت کے ساتھ معاہدات پر دستخط کا پابند کیا تھا۔ گو اس حکم نامے میں ویگنر گروپ کا باقاعدہ نام نہیں لیا گیا تھا تاہم پریگوزن یہ سمجھتے تھے کہ روسی حکام ان کے گروپ پر کنٹرول حاصل کر کے یوکرین کے محاذ پر حاصل کی گئی کامیابیوں کا کریڈٹ چھیننا چاہتے تھے۔ پریگوزن نے ماسکو کا رُخ کرنے سے قبل اپنے 2 ہزار سپاہیوں کے قتل کا الزام بھی روسی دفاعی اداروں پر لگایا۔

ماسکو صرف 2 سو کلو میٹر دور تھا؟

درباری سازشوں اور مسلح گروہوں کی بغاوت میں فرق ہوتا ہے۔ حکومتی اختلافات کے نتیجے میں سازش کے ذریعے اہل اقتدار طبقے کو گھر بھیجنا ہو تو منٹوں میں اس پر عمل درآمد کیا جاتا ہے ۔ انتظامی اعتبار سے منظم معاشروں میں مسلح بغاوتیں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ سو یہاں اقتدار میں تبدیلی کا آسان ترین نسخہ درباری سازش ہی ہوتا ہے۔ حالیہ بغاوت میں منفرد بات یہ تھی کہ یوکرین میں لڑنے والے نیم عسکری دستے واپس اپنے دارلحکومت کو فتح کرنے چل پڑے۔ روسی سرحد سے لے کر صوبہ ماسکو میں داخلے تک جتنی آسانی سے یہ گروہ آگے بڑھتا چلا گیا اس پر سبھی کو خاصی حیرت ہوئی۔

 ماسکو اور کابل میں خاصا فرق تھا لیکن پھر بھی ویگنر گروپ کے مسلح اہلکار باآسانی روس کے مرکز تک پہنچ آئے۔ انہیں راستے میں روسی فضائیہ کی جانب سے کی گئی کچھ بمباری کے سوا کوئی بڑی مشکل پیش نہیں آئی ۔ اور اس مقابلے میں بھی روسی فضائیہ کے سات ہیلی کاپٹر مار گرائے گئے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا روسی حکام اور ملکی سلامتی کے اداروں کے بیچ مزاحمت پر اختلافات تھے یا پھر ان نیم عسکری دستوں کی قوت ریاستی اداروں سے بڑھ کر ہے۔

کیا ماسکو کے خلاف بغاوت میں نیٹو یا امریکہ ملوث ہے؟

رواں صدی میں امریکی بالادستی کو جن 2 قوتوں سے بڑا خطرہ ہے ان میں روس اور چین قابلِ ذکر ہیں۔ ماسکو میں ہونے والے کسی بھی انتشار کا براہ راست فائدہ یقیناً امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ہوگا۔ لیکن اس سے یہ اخذ کرنا کہ موجودہ بغاوت میں بھی امریکی ملوث ہیں، کچھ قبل از وقت ہے۔ جیسے امریکی انتخابات کے بعد کیپیٹل ہل پر حملے سے پیدا ہونے والی صورتحال کو امریکی بلاک کے مخالف قوتوں سے نہیں جوڑا گیا تھا، ایسی صورتحال شاید یہاں بھی ہو سکتی ہے۔

 ویسے کیپیٹل ہل پر حملے اور ویگنر گروہ کی بغاوت میں مختلف یہ ہے کہ یہاں کسی سیاسی قوت نے بغاوت نہیں کی بلکہ ایک عسکری گروپ نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے۔ دوسرا کرائے پر لڑنے والوں کی خاصیت یہی ہوتی ہے کہ انہیں جہاں سے زیادہ’پیسے’ ملیں یہ ان کے لیے لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ویسے ایک باریک نکتہ یہ بھی ہے کہ ویگنر گروپ پر امریکہ نے 27 جون 2023 سے  نئی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اِدھر  اس گروپ نے روس میں بغاوت کا اعلان کیا اُدھر امریکی حکام نے پابندیاں لگانے کا فیصلہ ملتوی کر دیا۔ اب اگر کوئی اس فیصلے میں سازش کی بُو سونگھنا چاہے تو اس کی مرضی۔

کہیں اس سب کے پیچھے صدر پوتن ہی تو نہیں؟

مغربی میڈیا کے کچھ حلقوں نے اگر چہ اس سارے عمل پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے لیکن بیشتر مغربی تجزیہ کاروں نے اسے صدر پوتن کے خلاف بغاوت قرار دیا ہے۔ یوکرینی صدر زیلنسکی کے سابق مشیر ٹیموفی میلووانو کے مطابق اس بات کا امکان انتہائی کم ہے کہ اس کاروائی کے پیچھے خود روسی صدر ملوث ہوں۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ روسی وزارت دفاع اور فوجی حکام میں تبدیلیوں کے لیے پوتن نے یہ سارا ڈرامہ اسٹیج کیا ہے ۔ منطقی اعتبار سے دیکھا جائے تو روسی نظام حکومت ،جہاں اس وقت صدر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے،کسی وزیر دفاع یا فوجی افسر کی تبدیلی ان کے ایک حکم کے فاصلے پر ہے۔ یوکرین جنگ کی طوالت سے یقیناً صدر پوتن اور ان کے دفاعی حکام کے بیچ دوریاں آسکتی ہیں جو کہ کچھ عرصے سے مغربی میڈیا رپورٹ بھی کر رہا ہے۔ تاہم محض عسکری تبدیلیوں کے لیے اتنا سارا بکھیڑا پال کر دنیا کے سامنے خود کو کمزور ثابت کرنا بعید از قیاس لگتا ہے۔

کیا صدر پوتن کمزور ہوئے ہیں؟

یہ وہ سوال ہے جس کے آنے والے عالمی منظر نامے پر انتہائی دورس اثرات مرتب گے۔ کریمیا کے الحاق سے لے کر شام میں اپنے اتحادی بشار الاسد کے کامیاب دفاع تک صدر پوتن کامیاب نظر آئے ہیں۔ 2016 ء کے امریکی انتخابات میں روس پر یہ الزام لگانا ہی امریکیوں کے لیے خاصی سبکی کا باعث تھا کہ روس نے انتخابی عمل میں مداخلت کی ہے۔ فروری 2022 ء میں جب صدر پوتن نے یوکرین پر حملے کا فیصلہ کیا تب پہلی بار روسی اعلانات اور اقدامات میں کچھ فرق دکھائی دیا جانے لگا۔ یوکرین فتح کرنے کی مختصر مہم طویل ہوتی گئی اور اب ایک نجی عسکری گروپ نے بغاوت کا اعلان کیا۔گزشتہ کئی برسوں میں عالمی سیاست کے میدان میں کامیابیاں سمیٹنے والے صدر پوتن اس اندرونی چیلنج سے نمٹ پائیں گے یقیناً آنے والا وقت اس کی بہتر طریقے سے وضاحت کرے گا۔

چین اور بھارت کی خاموشی؟

روس میں ہونے والی ایک روزہ فوجی بغاوت میں سب سے حیرت انگیز کردار اس کے خطے کی 2 بڑی قوتوں یعنی چین اور بھارت کا رہا ۔ اس ساری مہم کے دوران دونوں ممالک کی جانب سےکوئی سرکاری بیان دیکھنے میں آیا نہ ہی چینی و بھارتی حکام نے روسی حکام سے رابطہ کیا۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ان دنوں امریکی دورے پر ہیں اس لیے بھارتی حکومت کی جانب سے یہ توقع کرنا کہ وہ اپنے پرانے دوست سے اسی دوران رابطہ کرے ذرا مشکل تھا۔ چین جو کہ چند برس پیشر عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتا تھا اب عالمی سیاست میں کھل کر اپنے پتے کھیل رہا ہے۔ اس کی جانب سے قابل اعتماد دوست کی طرف “انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی” کوئی نیک شگون نہیں تھا۔ چین کی طرف سے پہلا باضابطہ بیان اتوار کے روز سامنے آیا جب روسی وزارت خارجہ نے اپنے نائب وزیر کے دورہ بیجنگ کے حوالے سے بیان جاری کیا جس کے مطابق “چینی حکام نے 24 جون کو پیش آنے والے واقعات پر روسی قیادت کے اقدامات کی مکمل حمایت کی ہے”۔ اس کے مقابلے میں چینی وزارت خارجہ نے پہلے تو روسی نائب وزیرخارجہ کے دورہ بیجنگ میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کی خبر جاری کی۔ پھر کچھ دیر بعد اس میں اضافہ کرتے ہوئے حالیہ اقدامات کو روس کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئےروس کی جانب سے اپنی سلامتی کی خاطر اٹھائے گئے اقدامات کی حمایت کا اعلان کیا۔

اب کیا چین نےواقعی عدم مداخلت کی پالیسی اور بھارت نے مودی کے امریکی دورہ کے باعث صدر پوتن سے رابطہ نہیں کیا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ایسے ہی ملٹی پولر ورلڈ کو اقوام عالم کے لیے خطرہ سمجھنے والے مغربی مبصرین روس میں پوتن کے مقابلے میں کسی دوسری قوت کے ابھرنے پر خوشی کا اظہار تو کر رہے ہیں، لیکن یہ خوشی کب تک برقرار رہے گی جلد صورتحال واضح ہونے کا امکان ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وی نیوز کے ساتھ بطور ایڈیٹر پلاننگ منسلک ہیں۔ اس سے قبل بھی مختلف قومی و بین الاقوامی میڈیا کے اداروں کے لیے کام کر چکے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp