جو خوش قسمت پاکستانی امسال قربانی کا جانور خریدنے کے لیے منڈی مویشیاں گئے، انہیں بخوبی اندازہ ہوا کہ پاکستانی معیشت کس حال میں ہے؟
چونکہ پاکستان میں معیشت کے بارے میں درست اعداد و شمار میسر نہیں ہوتے۔ حکمران اور اپوزیشن، دونوں اپنے مطلب کے اعدادوشمار جاری کرتے ہیں، اس لیے میں ایک طویل عرصہ تک پاکستانیوں کے چہروں سے پاکستان کی صورت حال بالخصوص اس کی معیشت کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔
میں دیکھتا ہوں کہ پاکستانیوں کی آنکھوں میں چمک کتنی باقی رہ گئی؟ ان کے ماتھے پر فکر کی سلوٹیں کتنی تعداد میں ہیں؟ ان کے ہونٹوں پر سرخی مزید کتنی مدھم ہوئی؟ چمک کتنی باقی ہے؟ میں انہی چند بنیادوں پر تجزیہ کرنا کافی سمجھتا ہوں۔
میرے پاس اس سے زیادہ کا وقت ہوتا تو میں ان کے لباس کا جائزہ لیتا، ان کے کھانے پینے کی عادتیں بہ نظر غور دیکھتا۔ اس طرح پاکستانیوں اور پاکستان کا سارا احوال کھل کرسامنے آجاتا۔ تاہم گزشتہ چند برسوں سے میں نے لوگوں کے چہرے پڑھنا چھوڑ دئیے۔ اب میں نے ایک نیا طریقہ اختیار کیا ہے۔
اب پاکستانی معیشت اور معاشرت کا اندازہ منڈی مویشیاں میں جا کر زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ قربانی کے لیے لائے گئے ہڈیوں کے ڈھانچے جنہیں عام طور پر بکرے، بیل، اونٹ کہا جاتا ہے، بہ زبان حال بتاتے ہیں کہ ان کے مالکوں کے پاس اپنے کھانے پینے کے پیسے نہیں ہوتے، وہ انہیں کیا کھلاتے پلاتے!
آج کل بیسن بھی بہت مہنگا ہوچکا ہے، ورنہ بھلے وقتوں میں بعض بیوپاری جانوروں کو منڈی لانے سے پہلے پانی میں بیسن گھول کر پلاتے تھے جس کے نتیجے میں وہ تا دمِ فروخت موٹے تازے نظر آتے تھے۔
گاہک انہیں خرید کر، مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے اپنے گھروں کی طرف رواں دواں ہوتے۔ یہ الگ بات ہے کہ اگلی صبح تک جانور کی حالت دوبارہ پتلی ہوجاتی تھی۔ اور پھر یہ جانور نحیف و نزار حالت ہی میں اللہ کے حضور پیش کیے جاتے۔
آج کل بیسن کے بجائے سٹیرائڈز کے انجیکشن کمال جادوئی اثر دکھاتے ہیں۔ بیوپاری کیا چالاکیاں دکھاتے ہیں، یہ ہمارا موضوع نہیں، ہمیں تو پاکستان کی معیشت کا اندازہ لگانا ہے، منڈی مویشیاں جا کر پتہ چلا کہ پاکستانی معیشت بھی ہڈیوں کا ڈھانچہ ہی ہے۔اس کا اندازہ خریداروں کے چہروں پر اڑی ہوئی ہوائیوں سے بھی ہوتا ہے۔ وہ جس طرح منمناتے ہوئے جانور کی قیمت پوچھتا ہے،وہ پاکستانی معیشت کا سارا کچا چٹھا کھول دیتی ہے۔
ویسے پاکستانی معیشت کو سمجھنے کا ایک تیسرا آپشن بھی ہے۔ فرض کریں پاکستان کی آبادی 100 افراد کی ہو، ان میں امیرکبیر لوگوں کی تعداد15 ہے، اپر مڈل کلاس والے 25 ہیں، اور لوئر مڈل کلاس والے 65 ہیں۔
ورلڈ بینک کی تازہ ترین تعریف کے مطابق جو فرد 10 سے 40 ڈالر روزانہ کماتا ہے، وہ مڈل کلاس یعنی متوسط طبقہ میں شامل ہوگا۔ اس بات کو پاکستانی روپوں میں سمجھنے کی کوشش کریں تو جو پاکستانی کم از کم 2878 روپے روزانہ یا 86 ہزار368 روپے ماہانہ کمائے، وہ اپنے آپ کو مڈل کلاس میں شامل سمجھے۔ اور جو 11515.86 روپے روزانہ یا پھر 3 لاکھ 45 ہزار 475 روپے ماہانہ کما رہا ہو، وہ بھی مڈل کلاس میں ہی ہے، ہاں! اسے اپر مڈل کلاس کا بندہ کہا جائے گا۔
اب آپ اپنی روزانہ یا ماہانہ آمدن دیکھ کر اپنا مقام و مرتبہ دیکھ لیں۔
ایک اندازے کے مطابق 2011 میں مڈل کلاس کے لوگ پاکستان کی مجموعی آبادی کا ساڑھے 9 فیصد بنتے تھے۔ یہ لوگ 2018میں 20 فیصد ہوگئے۔ اس میں مڈل کلاس کے تمام طبقات شامل تھے۔ تاہم پھر جناب عمران خان کا دور شروع ہوا اور مڈل کلاس میں سے 13 فیصد لوگ نیچے لوئر کلاس میں جا گرے۔ اب مڈل کلاس میں باقی بچے 7 فیصد لوگ۔ ان میں اپر مڈل کلاس والے بھی تھے اور لوئر مڈل کلاس والے بھی۔
2020 سے 2022 تک مڈل کلاس سے نیچے گرنے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا۔ جناب شہباز شریف کی ‘ سیاست نہیں ریاست’ بچاؤ پالیسی نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ اس پالیسی نے باقی ماندہ مڈل کلاسیوں کو بھی اٹھا کر نیچے کے طبقے کی طرف زور سے دھکا دیا، یوں ان کی ہڈی، بوٹی ایک ہوگئی۔
حیرت ہے کہ اب بھی جناب اسحاق ڈار، وفاقی وزیر خزانہ کو مڈل کلاس میں کوئی فرد زندہ بچا ہوا نظر آتا ہے۔ انہوں نے وفاقی بجٹ کی منظوری کے عین آخری لمحات میں ترمیم کرکے مزید ٹیکسز بجٹ میں شامل کردئیے، یوں مڈل کلاس بالخصوص تنخواہ دار طبقہ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیے گئے۔ جناب اسحاق ڈار کے پاس ابھی کیلوں بھرا لفافہ موجود ہے اور ہاتھ میں ہتھوڑی۔ لگتا ہے کہ وہ حفظ ماتقدم کے طور پر مزید کیل بھی ٹھونکیں گے۔
آئیے! اصل بات کی طرف واپس آتے ہیں۔ 100 پاکستانیوں میں شامل دیگر طبقات کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک ان 100 پاکستانیوں میں 2 سے 3 لوگ ایسے تھے جو خط غربت سے بھی نیچے گرے پڑے تھے۔ ان کی روزانہ آمدن ایک ڈالر90 سینٹس یعنی آج کے حساب سے 547 پاکستانی روپوں سے بھی کم تھی۔ بہ الفاظ دیگر ان کی ماہانہ آمدن ساڑھے 16 ہزار روپے بھی نہیں بنتی۔ تاہم اب ان گرے پڑے پاکستانیوں کی تعداد میں مزید خاطر خواہ اضافہ ہوچکا ہے۔ لوئر کلاس میں سے بڑی تعداد کو دھکا دے کربدترین پستیوں کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک 100 پاکستانیوں میں 6 سے 7 لوگ ایسے تھے جن کے پاس کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ نہ چھابڑی لگانے کی استطاعت تھی نہ ہی کوئی انہیں نوکر رکھنے کو تیار تھا۔ یہ سوال انہیں سمجھ نہیں آتا کہ وہ اپنا اور اپنے گھر والوں کے لیے 2 وقت کی روٹی کا انتظام کیسے کریں؟ اب ایسے ناسمجھوں کی تعداد میں تیزی سے مزید اضافہ ہورہا ہے۔
رہی بات حکمرانوں کی، وہ کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کے لیے پیاز، ٹماٹر کی فکر کرنا ان کا کام نہیں۔ کوئی وقت تھا، حکمران طبقہ نعرے لگاتا تھا کہ وہ ہر ایک پاکستانی کو روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرے گا۔ اب یہ نعرے اس وقت تک ہی لگتے ہیں جب تک نعرے لگانے والا سیاہ راہنما حکمران نہیں بن جاتا۔
پھر وہ حکمران اپنی قوم کی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں کہ یہ مڈل کلاس ہی تو ہے جو دنیا کے کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی انداز میں ان کی مزید کچھ تعریف و توصیف کرتے ہیں۔ اور بیچارے مڈل کلاسیے ان جادوئی الفاظ کے سحر میں اس طرح جکڑے جاتے ہیں کہ جب حکمران کہتا ہے’ چڑھ جا بیٹا سولی ! رام بھلی کرے گی’ وہ اک عالم بے خودی میں سولی چڑھ جاتے ہیں۔
آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے نوبل انعام یافتہ ڈراما نویس، نقاد، ناول و افسانہ نگار اور سیاسی کارکن جارج برنارڈ شاہ نے کہا تھا کہ یہ مڈل کلاس والے دوسروں کے لیے زندگی گزارتے ہیں، اپنے لیے نہیں۔ یہی ان کی اخلاقیات ہے۔
جارج برنارڈ شاہ آج زندہ ہوتے تو پاکستانی مڈل کلاس کا بالتفصیل جائزہ لے کر اپر مڈل کلاس والوں کے لیے الگ سے کہتے کہ وہ ساری عمر امیر کلاس میں شامل ہونے کے لیے تگ و دو کرتے رہتے ہیں، اگر ایسا نہ ہوسکے تو طبقہ اشرافیہ والوں کی خوشنودی حاصل کرنے اور ان کے منہ سے ایک تعریفی جملہ سننے کے لیے ساری عمر گزار دیتے ہیں۔
لوئر مڈل کلاس والے اپر مڈل کلاس اور لوئر کلاس والے لوئر مڈل کلاس میں کسی بھی طرح سے شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن جیسے ہی وہ سیڑھی چڑھ کر بالائی منزل تک پہنچنے لگتے ہیں، اوپر والے زور کا دھکا دے کر نیچے گرا دیتے ہیں۔ دھکا دینے والے اپر مڈل کلاسیے ہی ہوتے ہیں جو یہ فریضہ طبقہ اشرافیہ کے اشارہ ابرو پر سرانجام دیتے ہیں۔
یوں پاکستانی معیشت اور معاشرت کی یہ عجب فلم چلتی رہتی ہے، کبھی ختم نہیں ہوتی۔